ایک اور اعتراض
سوال: میں مدرسہ مظاہر العلوم کا فارغ التحصیل ہوں۔ میرا عقیدہ علما دیو بند و مظاہر العلوم سے وابستہ ہے مگر ساتھ ساتھ اپنے اندر کافی وسعت رکھتا ہوں۔ جہاں مجھے بھلائی معلوم ہوجائے، وہاں حتی الامکان اس میں حصہ لینے کا رجحان رکھتا ہوں۔ اسی وجہ سے جماعتِ اسلامی کے ساتھ قلبی ربط رکھتا ہوں۔ اخبار ’’کوثر‘‘ اور لٹریچر کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں، مولانا ابوللیث کی زندگی کو قریب سے دیکھ چکا ہوں۔ علمائے دیوبند اور آپ کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، اس کا بھی مجھے علم ہے اور اس کی وجہ سے میری طبیعت پریشان ہے۔ میں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے وہ شمارے پڑھے ہیں جن میں حکیم گنگوہی صاحب کے اعتراضات کے جوابات آپ نے بہ نفس نفیس اور مولانا امین احسن صاحب نے دیے ہیں۔ انہیں پڑھتے ہی میں نے حضرت استاد مفتی … کی خدمت میں جوابی لفافہ بھیجتے ہوئے لکھا ہے کہ میری نظر میں ایک یہی جماعتِ اسلامی موجودہ وقت میں حزب اللہ معلوم ہوتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کام کروں۔ مگر ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ آپ حضرات کو اس جماعت سے شدید اختلاف ہے۔ لہٰذا آپ مولانا مودودی کے وہ خیالات ان کی کتابوں سے نقل فرمائیں جو اہل سنت و الجماعت کے خلاف ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ’’کشف الحقیقۃ‘‘ نامی رسالہ بھیج دیا۔میں اس کا مطالعہ کرچکا ہوں۔
اس رسالے میں چند ایسی عبارات درج ہیں جن کے متعلق مجھے بھی اشتباہ ہوا۔ چنانچہ میں نے تنقیحات حاصل کی اور اس میں وہ عبارات مل گئیں جو مفتی صاحب نے نقل کی تھیں۔ اب میں ان عبارات کے متعلق آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ کی ان سے مراد کیا ہے۔ آپ کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر جواب دیں تاکہ میرے اور میرے دو تین رفقاء کے شکوک رفع ہوسکیں۔ اس وقت تنقیحات میرے سامنے موجود ہے اور قابل غور عبارات یہ ہیں:
(۱) قرآن مجید کے لیے کسی تفسیر کی حاجت نہیں۔ ایک اعلیٰ درجے کا پروفیسر کافی ہے جس نے بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہو‘‘۔ ( صفحہ ۱۹۳) … (ساری عبات نقل کرنے کی ضرورت نہیں) واضح فرمائیے کہ اس عبارت کا مطلب کیا ہے؟ نفی تفسیر سے کونسی تفسیر کی نفی مر ادہے! کیا اس تفسیر کی نفی مراد ہے جو اسرائیلیات پر مشتمل ہو؟ یا موضوع حدیث سے کسی آیت کی تفسیر کی گئی ہو؟ اور پروفیسر کو غائر مطالعہ کیا بغیر احایث و آثار صحابہ تابعین کے حاصل ہوسکتا ہے تو تفسیر کی حاجت کیوں نہیں؟
(۲) قرآن مجید اور سنت رسولﷺ کی تعلیم سب پر مقدم ہے مگر تفسیر و حدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں (صفحہ ۱۱۴) اس عبارت کو خواہ ما قبل و ما بعد سے ملایا جائے یا قطع و برید کرکے الگ کیا جائے، بظاہر اس کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم و احادیث نبویہ ﷺ کی تعلیم مفسرین و محدثین حضرات کی تعلیم سے نہ لی جائے بلکہ براہ راست ان سے مطالب اخذ کیے جائیں۔ اگر یہ مطلب ہے تو آپ کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام کو بھی براہ راست اخذ مطالب کی اجازت نہ تھی، بلکہ وہ بھی محتاج تفسیر رسول ﷺ تھے۔ بعض صحابہؓ نے بعض سے آیات کے مطلب سیکھ لیے۔ تو پھر آج کس طرح بغیر تفسیر مفسرین متقدمین قرآن حکیم کے مطالب اخذ کیے جاسکتے ہیں؟ اس مقام پر اگرچہ آپ نے یونیورسٹی کو مخاطب کیا ہے مگر ان کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ قرآن و سنت رسول ﷺ کی تعلیم کو لازم قرار دے کر ان کے مطالب بغیر قرآن و حدیث کے متقدم ذخیروں کے اخذ کریں۔ کیا بچہ بغیر والدین کے خود بخود بولی سیکھ سکتا ہے؟ بہرکیف اگر یہ مطلب ہوجو بظاہر صاف معلوم ہوتا ہے تو بجائے اصلاح کے بہت نقصان دہ ہے۔
(۳) ’’وہ ابھی تک اصرار کر رہے تھے کہ ترکی قوم میں وہی فقہی قوانین نافذ کے جائیں جو شامی اور کنز الدقائق میں لکھے ہوئے ہیں‘‘۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ شامی وغیرہ کتب فقہ میں اسلامی قوانین نہیں لکھے ہوئے؟ کیا وہ فقہائے اسلام کے خود ساختہ قوانین ہیں جو کہ قرآن و حدیث کے مخالف ہیں؟ بہرکیف اس کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟ ان کتابوں میں یقیناً بعض ایسے مسائل ہیں جو مرجوح ہیں مگر ان سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان میں سارے مسائل قوانین اسلام کے خلاف ہیں۔ کیا ان میں جزئیات کے علاوہ مسلمانوں کی تنظیم اور اتحاد وغیرہ کا ذکر بسیط نہیں ہے؟ اگر ہے تو ان میں کیا کمی ہے۔ امید ہے کہ تکلیف فرما کر ہمیں اطمینان دلائیں گے۔
جواب: میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں کہ میری جن عبارات سے آپ کے دل میں شبہ پیدا ہوا تھا، ان کا مفہوم آپ نے خود مجھ ہی سے دریافت کرلیا۔ اہلِ حق کا یہی طریقہ ہے کہ قائل کی مراد پہلے قائل ہی سے پوچھی جائے نہ یہ کہ خود ایک مطلب لے کر اس پر فتویٰ جڑدیا جائے۔
عبارات نمبر ۱، نمبر ۲ سے میری مراد کیا ہے، اس کو سمجھنے میں آپ کو اور آپ جیسے دوسرے لوگوں کو جو دقت پیش آئی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ لوگ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ماحول سے، ان کے نصابِ تعلیم سے اور ان کے اندر گمراہی کی پیدائش کے بنیادی اسباب سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ آپ لوگ ان درس گاہوں کو اپنے دینی مدارس پر قیاس کرتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ جس طرح آپ کے مدرسوں میں کوئی مولوی صاحب آسانی سے بیضاوی اور جلالین اور ترمذی پڑھالیتے ہیں، اسی طرح ان کالجوں میں پڑھاسکتے ہیں۔ اسی لیے آپ کو میری یہ بات بڑی انوکھی معلوم ہوئی کہ میں تفسیروحدیث کے پرانے ذخیروں کی بجائے ان کا کوئی بدل ان کالجوں کے لیے تجویز کررہا ہوں۔ لیکن میں آپ کے دینی مدارس کی طرح ان کالجوں اور یونیورسٹیوں سے بھی واقف ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہاں کس قسم کا ذہنی ماحول پایا جاتا ہے اور ان کے طلبہ کن افکارونظریات کی آب و ہوا میں نشوونما پاتے ہیں۔ میں نے خود ان کتابوں کو پڑھا ہے جو مذہبی تخیل کی جڑوں تک کو انسان کے ذہن سے اکھاڑ پھینکتی ہیں اور سراسر ایک ملحدانہ نظریہ کائنات و انسان اس طرح آدمی کے ذہن میں بٹھادیتی ہیں کہ آدمی اسے بالکل ایک معقول نظریہ سمجھنے لگتا ہے۔
میں نے تفسیر قرآن مجید اور شرح حدیث اور فقہ کی پرانی کتابوں کو بھی پڑھا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ جدید زمانے کے علوم پڑھنے والے لوگوں کے ذہن میں شکوک و شبہات کے جو کانٹے چبھے ہوئے ہیں، صرف یہی نہیں ان کتابوں میں ان کو نکال دینے کا کوئی سامان نہیں ہے بلکہ ان میں قدم قدم پر وہ چیزیں ملتی ہیں جو نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے دل میں مزید شبہات پیدا کردینے والی ہیں اور بسا اوقات ان کی وجہ سے ایک مشکک شک کے مقام سے آگے بڑھ کر حجودوانکار کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ان جدید درسگاہوں میں پرانے طرز کے معلم دینیات اپنے پرانے طریقوں اور ذخیروں سے دین کی تعلیم دے کر اس کے سوا کوئی خدمت انجام نہ دے سکے کہ خود بھی مضحکہ بنے اور دین کا بھی استخفاف کرایا۔ یہ ساری چیزیں میری نگاہ میں ہیں۔ اسی بنا پر میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ ان درسگاہوں کے لیے جب تک قرآن مجید کی ایسی تفسیریں اور حدیث کی ایسی شرحیں تیار نہ ہوجائیں جن میں ان تمام اہم سوالات کا جواب مل سکتا ہو جو نئے زمانے کے علوم پڑھنے والوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں، اس وقت تک کوئی خاص کتاب داخلِ نصاب نہ کی جائے بلکہ تلاش کرکرکے ایسے استاد رکھے جائیں جو قرآن وحدیث میں گہری بصیرت رکھتے ہوں اور علوم جدیدہ سے بھی واقف ہوں اور وہ تفسیر کی کوئی کتاب پڑھانے کی بجائے براہِ راست قرآن کا درس دیں اور حدیث کی کوئی شرح پڑھانے کی بجائے براہِ راست حدیثِ نبویﷺ کی تعلیم دیں تاکہ طلبہ کو ان بحثوں سے سابقہ ہی نہ پیش آئے جو ان کے لیے ابتداً موجب تو حش ہوا کرتی ہیں۔
اس وقت تو پھر بھی کالجوں کا ماحول پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہوچکا ہے، مگر جس زمانے میں، میں نے ’’تنقیحات‘‘ کے یہ دونوں مضمون ’’ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص‘‘ اور ’’مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل‘‘ لکھے تھے (یعنی ۱۹۳۶ء) اس وقت تک تو علی الاعلان دین کا مذاق اڑایا جارہا تھا۔ ’’نگار‘‘ کی طرح کے پرچے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ میں تیزی سے الحاد پھیلارہے تھے اور اشتراکی تحریک ایک وبا کی طرح نوجوان نسل کو متاثر کرتی چلی جارہی تھی۔ آپ کے مذہبی مدارس میں پڑھنے پڑھانے والوں کو نہ اس صورتحال کا کوئی اندازہ تھا اور نہ انہوں نے اپنے وقت کا ایک لمحہ اس مرض کی تشخیص کرنے اور اس کا علاج سوچنے پر صرف کیا۔ میں مدتوں اپنی راتوں کی نیندیں حرام کرکے ان مسائل پر غور کرتا رہا اور وقت کے تعلیمی رہنماؤں کے سامنے ان کے نظامِ تعلیم کا پورا تجزیہ کرکے میں نے وہ اسباب صاف صاف پیش کردیے جو الحاد کی بڑھتی ہوئی تشویشناک رو کے اصل موجب تھے۔ اس کے ساتھ میں نے ان کو یہ بھی بتایا کہ اگر آپ فی الواقع اس الحاد کی پیدائش کو روکنے کے خواہش مند ہیں تو اپنے نظام تعلیم میں یہ اصلاحات کیجیے۔ اس سلسلے میں جب کالجوں میں موضوع دینی نصاب تجویز کرنے کا سوال پیش آیا تو میں نے اپنی حد تک اس پورے ذخیرے پر نگاہ ڈالی جو تفسیر قرآن مجید، شرح حدیث اور فقہ و کلام کے موضوعات پر موجود تھا اور مجھے ایک کتاب بھی ایسی نظر نہ آئی، خواہ وہ اردو میں ہو یا عربی میں یا انگریزی میں، جسے ان درس گاہوں کے لیے تجویز کیا جاسکے… اور اس وقت کیا، میں آج آپ کے ان مفتیوں سے پوچھتا ہوں کہ ذرا کسی ایسی کتاب کا نام لیجیے جسے اطمینان کے ساتھ طلبہ کے ہاتھ میں دیا جاسکے…آخرکار اس پیچیدگی کا حل مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہ آیا کہ سرِدست جو چند گنے چنے آدمی ہماری قوم میں ایسے موجود ہیں جو کالجوں کی مخلوق کو دین کی تعلیم دینے کے اہل ہیں ان کی خدمات حاصل کرکے چند مرکزی درسگاہوں میں تعلیمِ دین کا انتظام کیا جائے، پھر جو کھیپ ان کے فیضِ تعلیم سے تیار ہوکر نکلے گی اس میں ایسے معلمین نکل آنے کی توقع کی جاسکتی ہے جو دوسری درسگاہوں کے کام آسکیں اور کالجوں کے لیے موضوع نصاب بھی تیار کرسکیں۔
میری اس تشریح کے بعد اب ذرا آپ پھر تنقیحات کے ان دونوں مضمونوں کو اول سے آخر تک پڑھئے۔ اس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ آج پندرہ سال بعد ان مضامین کی جو داد دیوبند اور مظاہرالعلوم کے دارالافتاؤں سے ملی ہے وہ کس درجہ علم و بصیرت اور خدا ترسی پر مبنی ہے۔ میں حیران ہوں اگر یہ لوگ ان معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو آخر کس نے ان پر فرض کردیا ہے کہ ان پر اظہارِ رائے فرمائیں اور وہ بھی بشکل فتویٰ؟
رہی تیسری عبارت، تو اس سے جو شبہ آپ کے دل میں پیدا ہوا ہے اور جو شبہ دیوبند و مظاہرالعلوم کے مفتیوں نے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، اس کی تردید اسی مضمون سے ہوسکتی ہے جس نے وہ عبارت واقع ہوئی ہے، بشرطیکہ مضمون کو بغور پڑھا جاتا۔ آپ کے پاس اگر تنقیحات موجود ہے تو اس میں وہ مضمون نکالیں جس کا عنوان ’’ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش‘‘۔ اسے دیکھئے اور اس نظر سے دیکھئے کہ آیا اس میں مسئلہ زیرِبحث یہ ہے کہ فقہ اسلامی کی معتبر کتابیں کونسی ہیں اور ایک سلطنت میں کونسی فقہ کس طرح جاری ہونی چاہیے یا یہ کہ موجودہ ترکی میں الحاد و بے دینی اوراندھی مغربیت کو فروغ پانے کی وجہ کیا ہے؟ اگر کسی شخص میں کسی مضمون کو پڑھ کر اس کا موضوع سمجھنے کی کچھ صلاحیت ہو تو وہ بیک نظر معلوم کرلے گا کہ میرے اس مضمون کا اصل موضوع دوسرا ہے نہ کہ پہلا۔ پھر یہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے کہ ایک موضوع پر کلام کرتے ہوئے ضمناً اگر ایک فقرہ میرے قلم سے کسی دوسرے موضوع سے متعلق نکل گیا ہے تو آپ صرف ایک ہی فقرے کی بنا پر فیصلہ فرمالیں کہ اس دوسرے موضوع کے بارے میں میرا مذہب و مسلک کیا ہے اور اس پر مزید ستم یہ ہے کہ آپ اس فقرے سے مذہب و مسلک بھی مستنبط فرماتے ہیں تو وہ جس کی تردید میری بیسیوں تحریریں کررہی ہیں۔ آپ کو اگر یہ معلوم کرنا تھا کہ فقہ میں میرا مسلک کیا ہے اور سلف کی فقہی کتابوں کے بارے میں میری کیا رائے ہے تو آپ کو میری وہ تحریریں دیکھنی چاہیے تھیں جو میں نے فقہ کے موضوع پر لکھی ہیں اور جو کچھ نہیں تو صرف میرا وہ رسالہ ہی پڑھ لیتے جو ’’اسلامی قانون‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ آپ کے وہ سارے شبہات رفع ہوجاتے جن کی عمارت تنقیحات کے صرف ایک فقرے پر تعمیر ہوئی تھی۔
اس سلسلے میں اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات اور عرض کردوں۔ علمائے کرام علوم دینیہ میں جیسی کچھ نظر رکھتے ہوں، بہرحال دو چیزیں ایسی ہیں جن سے وہ قریب قریب بالکل نا واقف ہیں:
(۱) انہیں کچھ خبر نہیں ہے کہ قریب کے زمانے میں مختلف مسلمان ملکوں میں مغربیت اور اسلامیت کے درمیان کس کس طرح کی کشمکش ہوئی ہے اور اس میں ہرجگہ اسلامیت کی شکست اور مغربیت کے غلبہ و فروغ کے اسباب کیا ہیں اور اس افسوسناک نتیجے کے رونما ہونے میں خود علماء اور حاملانِ دین کی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا کتنا دخل ہے۔
(۲) انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ دنیا کے موجودہ تمدن میں اگر ہم ایک اعلیٰ درجے کی ترقی یافتہ اسلامی ریاست کا انتظام خالص اسلامی اصولوں پر چلانا چاہیں تو ہمیں کس قسم کے مسائل سے سابقہ پیش آئے گا اور ان مسائل کو حل کرنے میں سلف کی چھوڑی ہوئی علمی میراث کس حد تک ہمارے کام آسکے گی اور حد سے آگے ہمارا کام اجتہاد کے بغیر کیوں نہ چل سکے گا؟ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ان دونوں باتوں سے علماء کی غفلت و بے خبری کا حال وہ نہ ہوتا جو اس وقت ہے، تو انہیں میری بہت سی باتیں سمجھنے میں وہ مشکلات پیش نہ آتیں، جو اب آرہی ہیں۔ پھر غضب یہ کہ بجائے اس کے وہ اپنے علم و واقفیت کی اس کمی کو محسوس فرماتے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتے، انہیں الٹا اس شخص پر غصہ آتا ہے جو ایک طرف ان کی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسری طرف دین کو اس نقصان سے بچانا چاہتا ہے جو اس خامی کی بدولت پہنچ رہاہے اور آگے پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی اس روش کا انجام کیا ہوگا۔
روسی ترکستان میں اس کا انجام یہ ہوچکا ہے کہ اشتراکیوں نے پہلے اس طرح کے علماء کو استعمال کرکے ان مٹھی بھر مسلمین کو ختم کرایا جو اشتراکیت کے مقابلے میں ایک کامیاب دینی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتے تھے پھر وہ عوام الناس کو اپنے اثر میں لاکر ان کے ہاتھوں علمائے کرام کو بھی ختم کرادیا اور علماء کے ساتھ ساتھ خود دین کا جنازہ بھی اٹھوادیا۔ اب اسی داستان کا اعادہ یہاں ہوتا نظر آرہا ہے جو لوگ متفرنجین اور ملاحدہ کے مقابلے میں یہاں دین کا علم اٹھانے کی قوت و صلاحیت رکھتے ہیں، علماء کا ایک گروہ کثیر ان کے مقابلے میں متفرنجین اور ملاحدہ کے ہاتھ مضبوط کررہا ہے۔ اگر خدانخواستہ علماء کی مدد سے ان کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد جو نتائج سامنے آئیں گے، انہیں دیکھنے کے لیے ہم تو موجود نہ ہوں گے مگر یہ حضرات علماء اور ان کی آئندہ نسلیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنے حق میں اور اس دین کے حق میں کیسے کچھ کانٹے بوئے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الثانی ۱۳۷۱ھ، مارچ ۱۹۵۲ء)