اعتراضات بے تحقیق
سوال: آپ کی کتابوں کی بعض باتوں پر مجھے شک ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالات بھیج رہا ہوں، ان کے جواب دے کر مطمئن کریں:
(۱) آپ قضا وقدر کو جزو ایمان نہیں سمجھتے جیسا کہ آپ کی مندرجہ ذیل تحریر سے معلوم ہوتا ہے:
ہر چند میرے نزدیک ’’مسئلہ قضا و قدر جزو ایمان نہیں ہے‘‘ (مسئلہ جبرو قدر صفحہ ۱۵)
لیکن علمائے دین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جز و ایمان ہے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ میں ارشاد خدا وندی ہے:
اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللہِ تَعَالیٰ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْت
(۲) آپ نے رسالہ تجدید و احیائے دین میں فرمایا ہے کہ ’’ نماز ایک ٹریننگ ہے، اصلی عبادت نہیں ہے بلکہ اصلی عبادت کے لیے تیار کرتی ہے‘‘۔ یہی عقیدہ علامہ عنایت اللہ المشرقی رکھتے ہیں جو کہ اسلام کے سراسر خلاف ہے۔ جواب میں بتائیے کہ نماز اصلی عبادت کیوں نہیں؟
(۳) حضرت امام مہدی علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام کے صعود یا نزول کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
(۴)کیا مسیح علیہ السلام اور مہدی علیہ السلام ایک ہی وقت میں نازل ہوں گے یا علیحدہ علیحدہ وقتوں میں تبلیغ اسلام کریں گے؟
(۵) کیا امام مہدی علیہ السلام اور مسیح علیہ السلام ایک ہی وجود میں نازل ہوں گے یا علیحدہ علیحدہ وجو د میں؟
(۶) اگر وہ ایک ہی وقت میں نازل ہوں گے تو وہ اپنا امیر کس کو بنائیں گے؟ اور ان میں سے کون دوسرے کی بیعت کرے گا اور کیوں؟
(۷) کیا مسیح علیہ السلام نبی اللہ ہوں گے؟ اگر ایسا ہے تو ان پر وحی ہونا لازم ہے یا نہیں؟ اور وہ کس عقیدہ کی تبلیغ کریں گے؟ کیا اسلام کی یا عیسائیت کی؟
(۸) مسیح علیہ السلام کی حیات و وفات کے متعلق آپ اپنا عقیدہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ظاہر کریں۔ اسی طرح نزول و صعود کے متعلق ہمیں آپ کی تحریروں سے شبہ پڑتا ہے کہ مسیح علیہ السلام اور مہدی علیہ السلام کے آپ منکر ہیں؟
جواب: آپ کا عنایت نامہ ملا۔ آپ کے سوالات پر کچھ عرض کرنے سے پہلے میں آپ کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اوّل تو اپنی دنیا و عافیت کی فکر چھوڑ کر دوسروں کے خیر و شر کے کھوج میں پڑنا ہی کوئی معقول کام نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ کو ایسا ہی کچھ شوق ہے کہ دوسروں کے عقائد کی ٹوہ لیتے پھریں یا کچھ ایسی ضرورت لاحق ہوگئی ہے کہ دوسروں کے متعلق رائے قائم کریں تو کم از کم آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی شخص کے متعلق کوئی اچھی یا بری رائے تحقیق کے بغیر قائم کرنا بہت بری بات ہے۔ آج کل بہت سے پیشہ ور لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو خواہ مخواہ کسی فائدے کے لالچ کی بنا پر یا محض بغض و حسد کی بنا پر دوسروں کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے اشتہارات شائع کرتے ہیں اور ان میں ہر قسم کی غلط باتیں دوسروں کی طرف منسوب کرکے خلق اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر اور ان کے غلط حوالوں کو پڑھ کر کسی شخص کے متعلق رائے قائم کرنے کی بجائے آپ کو خود وہ اصل کتابیں پڑھنی چاہئیں جن میں اس شخص نے اپنے خیالات بیان کیے ہیں۔
اس نصیحت کے بعد آپ کے سوالات کے مختصر جوابات عرض کرتا ہوں:
(۱) آپ نے میری کتاب ’’مسئلہ جبرو قدر‘‘ کے جس فقرے کا حوالہ دے کر مجھ پر یہ الزام لگایا ہے کہ تم قضاوقدر کو جزو ایمان نہیں سمجھتے، وہ فقرہ میری عبارت کا نہیں بلکہ اس شخص کی عبارت کا ہے جس کے سوالات کا جواب دینے کے لیے میں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ آپ کے اس سوال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو آپ نے میری اس کتاب کو خود نہیں پڑھایا پھر آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ ایک شخص اپنی کسی تحریر کے درمیان جس عبارت کو حاشیہ چھوڑ کر واوین کے درمیان نقل کرتا ہے، وہ اس کی اپنی عبارت نہیں ہوتی بلکہ دوسرے شخص کی عبارت ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ نے یہ کتاب خود نہیں پڑھی ہے بلکہ کہیں سے سن سنا کر اس فقرے کے حوالے سے مجھ پر ایک الزام چسپاں کردیا ہے تو آپ خود ہی سوچ لیجیے کہ یہ حرکت کرکے آپ کیسی سخت نا انصافی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اگر آپ نے اس کتاب کو خود پڑھا ہے اور پھر بھی آپ یہ نہیں سمجھ سکے کہ جس عبارت کا ایک فقرہ آپ نقل کر رہے ہیں، وہ میری عبارت نہیں بلکہ اس سائل کی عبارت ہے جس کا جواب دینے کے لیے میں نے اسے نقل کیا ہے، تو آپ فرمائیں کہ اس قابلیت اور سمجھ بوجھ کے آدمی کو آخر کیا پڑی ہے کہ اتنے بڑے بڑے مسائل کے متعلق دوسروں کے عقائد کی صحت و عدم صحت کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائے۔
(۲) سوال نمبر۲ میں آپ نے میرے رسالہ ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کے حوالے سے جو ادھورا فقرہ نقل کیا ہے، وہ تجدید و احیائے دین میں نہیں ہے، بلکہ میری ایک دوسری کتاب ’’اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر‘‘ میں ہے۔ اس غلط حوالے سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ آپ نے میری کوئی کتاب بھی نہیں پڑھی ہے بلکہ میرے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں سے کچھ سن سنا کر اپنی یہ ’’فرد قرار داد جرم‘‘ تصنیف کر ڈالی ہے۔ پھر آپ کا ارشاد ہے کہ ’’یہی عقیدہ علامہ عنایت اللہ خان المشرقی بھی رکھتے ہیں‘‘ … یہ راز منکشف کرتا ہے کہ آپ نہ مشرقی صاحب کے متعلق کچھ جانتے ہیں اور نہ میرے متعلق۔ براہ کرم میری کتاب ’’اسلامی عبادات‘‘ کو کہیں سے حاصل کرکے خود پڑھیے۔ اس میں صفحہ ۶ سے صفحہ ۱۳ تک کی عبارات پڑھنے سے آپ کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ مشرقی صاحب کیا کہتے ہیں۔
(۳) آپ کے سوالات نمبر ۳، ۴، ۵، ۶ اور نمبر ۷ کا جامع جواب یہ ہے کہ
ظہور مہدی اور نزول مسیح علیہ السلام کے بارے میں کثرت سے جو احادیث مروی ہیں، ان سب کو جمع کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور اور مسیح ابن مریم علیہ السلام کا نزول دونوں ایک ہی زمانے میں ہوں گے۔ یہ الگ الگ شخصیتیں ہوں گی۔ مسلمانوں کے امیر و امام مہدی علیہ السلام ہی ہوں گے۔ مسیح ابن مریم علیہ السلام اس وقت ایک مستقل صاحب شریعت نبی کی حیثیت سے نہ ہوں گے بلکہ شریعت محمدی ﷺ کے متبع ہوں گے اور مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔
(۴) آپ کے آٹھویں سوال کا جواب یہ ہے مسیح علیہ السلام کی حیات و وفات کے متعلق میں اپنی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ میں وضاحت کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔ براہ کرم سورۃ آل عمران، رکوع ۶ اور سورۃ نساء، رکوع ۲۲ کے حواشی پڑھ لیجیے۔ آپ کا یہ ارشاد کہ ’’تمہاری تحریروں سے شبہ پڑتا ہے کہ تم مسیح علیہ السلام و مہدی علیہ السلام کے منکر ہو‘‘ حوالے کا محتاج ہے۔ آپ کی بڑی عنایت ہوگی کہ اگر میری ان تحریروں کی نشاندہی فرمائیں جن سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے۔ نیز اگر مضائقہ نہ ہو تو یہ بھی ساتھ ہی فرمادیں کہ وہ تحریریں آپ نے خود پڑھی ہیں یا کسی سے آپ نے یہ باتیں سن کر لکھ دیں؟
آپ برا نہ مانیں اگر میں آپ سے کہوں کہ درحقیقت آپ کے سوالات جواب دینے کے لائق نہ تھے، مگر ان کا جواب صرف اس لیے دے رہا ہوں کہ ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جو بعض غرض پرست علما اپنی افتراء پردازیوں سے سادہ لوح عوام کے دلوں میں پیدا کر رہے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ تا رجب ۱۳۷۰ھ، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)