مزید عنایات
سوال: جماعتِ اسلامی کے تحت قائم شدہ حلقہ ہمدرداں تو ہمارے علاقے میں پہلے سے تھا، لیکن باقاعدہ جماعتی کام حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ عوام کا رجحان جماعت کی طرف کثرت کے ساتھ دیکھ کر علمائے دیو بند، سہارن پور، دہلی اور تھانہ بھون نے جو فتاویٰ شائع کیے ہیں، وہ ارسال خدمت ہیں اور علمائے دیو بند کا ایک فتویٰ جو کہ ابھی زیر کتابت ہے، مفصل کتابی شکل میں آنے والا ہے، آنے پر ارسال کردیا جائے گا۔
ان فتوؤں کے جواب میں سکوت مناسب نہیں ہے۔ غور کرکے جواب دیجیے یہ بھی تحریر فرما دیجیے کہ اب آپ کا تعلق ہندوستان کی جماعتِ اسلامی سے کیا ہے؟ کچھ تعلق ہے یا نہیں؟ مولانا ابوللیث اصلاحی جو کہ ہندوستان کی جماعت کے امیر ہیں، حقیقت میں امیر ہیں یا صرف خانہ پری کے لیے فرضی ہیں؟ نیز یہ کہ اگر آپ نے کسی عالم سے فیض حاصل کیا ہو تو ان کے نام ضرور تحریر فرمائیں اور اگر کوئی اور وجوہ آپ کو ان کے فتوؤں کے بارے میں معلوم ہوں تو وہ بھی تحریر کریں کہ اس قدر شدت کے ساتھ یہ طوفان کیوں اٹھ رہا ہے؟
جواب: میں نے آپ کے ارسال کردہ فتوؤں کو بغور پڑھ لیا ہے۔ یہ کسی جواب کے لائق نہیں ہیں صرف اس لائق ہیں کہ انہیں اٹھا کر رکھ لیا جائے اور اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ میں نے پوری کوشش کی کہ ان فتوؤں میں مجھے اپنی کسی ایسی غلطی کا نشان مل جائے جو واقعی میں نے کی ہو اور ان حضرات نے دلائل کے ساتھ ثابت کردی ہو۔ ایسی کوئی چیز ملتی تو میں یقیناً اس کا جواب دینے کی بجائے مان لیتا اور اپنی اصلاح کرلیتا۔ میں نے یہ کوشش بھی کی کہ اگر فی الواقع ان حضرات کو کوئی ایسی غلط فہمی ہوئی ہے جو دیانتہً کسی شخص کو میری کسی تحریر یا کسی عمل سے ہوسکتی ہے تو اسے معلوم کروں۔ اگر ان فتوؤں میں اس طرح کی کوئی چیز نظر آجاتی تو میں اسے صاف کرنے میں بھی ہر گز تامل نہ کرتا۔ لیکن ان کے غائر مطالعہ کے بعد یہ اطمینان ہوچکا ہے کہ یہ فتوے ان دونوں کی طرح باتوں سے بالکل خالی ہیں، اور ان میں بجز تحریف، بہتان اور الزام تراشی کے اور کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا میں ان پر سکوت اختیار کرنے میں حق بجانب ہوں۔ اگر کوئی مسلمان ان فتوؤں کو دیکھ کر مجھ سے بدگمان ہو یا اس خیر سے رک جائے جس کی طرف میں دعوت دے رہا ہوں تو اس کی ذمہ داری سے میں عند اللہ بری ہوں۔ اس کی پوری ذمہ داری خالصتہً ان لوگوں پر ہے جو مناع للخیر بنے ہوئے ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کس نیت سے بنے ہوئے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم ان غلط بیانیوں اور تحریفات کا پردہ کیوں نہیں چاک کردیتے جو دعوت الیٰ الخیر کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ میں عرض کروں گا کہ اگر کوئی ایک فتویٰ یا ایک اشتہار ہوتا تو شاید میں بادل ناخواستہ اس کی غلطیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش بھی کر گزرتا، اگرچہ ایسی چیزوں کی طرف توجہ کرنا میرے لیے سخت کراہت کا موجب ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو پاکستان سے ہندوستان تک ہر طرف فتوؤں، پمفلٹوں، اشتہاروں اور مضامین کی ایک فصل اگ رہی ہے جس میں کمیونسٹ، سوشلسٹ، دیو بندی، فرنگیت زدہ ملحدین، قادیانی، منکرین حدیث، اہل حدیث اور بریلوی سب ہی اپنے اپنے شگوفے چھوڑ رہے ہیں اور آئے دن نئے نئے شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں۔ اس فصل کو آخر کون کاٹ سکتا ہے اور کہاں تک کاٹ سکتا ہے۔ مجھے اگر دنیا میں اور کوئی کام نہ کرنا ہوتو اسے کاٹنے میں عمر کھپاؤں اور جماعتِ اسلامی اگر اپنے مقصد اور کام سے دست بردار ہوجائے تو اس پر اپنی محنت ضائع کرے۔ ہمارے مخالفین تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم اس حماقت میں مبتلا ہوں اور اس جھاڑ جھنکار سے الجھ جائیں تاکہ فساق و فجار کی قیادت کو اپنا کام کرنے کے لیے صاف راستہ مل جائے۔ لیکن ہم نے ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلی۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ شیطان کی فصل ہے، وہی اسے کاٹے گا، خود نہ کاٹے گا تو سنتہ اللہ یہی ہے کہ بالآخر اس کو خود ہی اسے کاٹنا پڑے گا۔
آپ نے جو سوالات کیے ہیں، ان کے مختصر جوابات یہ ہیں:
(۱) تقسیم کے بعد فروری ۴۸ء میں جماعتِ اسلامی بھی مسلم لیگ کی طرح باقاعدہ تقسیم ہوگئی تھی۔ اب ہندوستان کی جماعتِ اسلامی کا نظام پاکستان کی جماعتِ اسلامی سے بالکل الگ ہے۔ نہ اس کی ذمہ داری میں ہم شریک ہیں اور نہ ہماری ذمہ داری میں وہ شریک ہے۔
(۲) مولانا ابوللیث صاحب جماعتِ اسلامی ہند کے ویسے ہی امیر ہیں جیسا کہ میں جماعتِ اسلامی پاکستان کا امیر ہوں۔ اگر میں فرضی یا خانہ پری کا امیر نہیں ہوں تو آخر ان کے متعلق ایسا گمان کیوں کیا جائے۔ اس طرح کی بدگمانی کے لیے کوئی معقول بنیاد اگر ہوسکتی تھی تو یہ ہوسکتی تھی کہ ہماری یہاں کی پالیسی میں ان کا یا وہاں کی پالیسی میں میرا کوئی دخل ہوتا۔ لیکن تقسیم کے بعد سے کوئی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ ایسا کوئی تعلق ہمارے درمیان ہے۔ حد یہ ہے کہ ہمارے درمیان نجی مراسلت تک بند ہے تاکہ کسی کو فتنہ انگیزی کا بہانہ نہ مل سکے۔ افسوس ہے کہ لوگ مخالفت کے جوش میں اندھے ہو کر بلا ثبوت ایسی باتیں زبان سے نکال دیتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ ان کے لیے تو یہ صرف دل کے بخار نکالنے کا ایک راستہ ہے مگر دونوں ملکوں کے موجودہ سیاسی ماحول میں یہ سینکڑوں خاندانوں کی زندگی کے لیے ایک تباہ کن الزام بن سکتا ہے۔
(۳) یہ ایک لاحاصل سوال ہے کہ میں نے کس عالم سے فیض حاصل کیا ہے۔ یہ سوال تو اس سے کرنا چاہیے جس نے کوئی علمی کام نہ کیا ہو اور جس کے علمی مرتبہ و مقام کو جاننے کے لیے مدرسہ کی سند اور استادوں کے ناموں کے سوا اور کوئی ذریعہ نہ ہو، میں نے کام کیا ہے اور میرا کوئی کام چُھپا ہوا نہیں بلکہ چھپَا ہوا سب کے سامنے موجود ہے۔ اس کو دیکھ کر ہر شخص معلوم کرسکتا ہے کہ میں نے کیا کچھ پڑھا ہے اور جو کچھ پڑھا ہے، اسے کتنا ہضم کیا ہے۔
(۴) میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ میری جماعتِ اسلامی کی اس قدر شدت کے ساتھ مخالفت یکایک اب کیوں شروع ہوگئی ہے اور یہ فتوے کن وجوہ سے دیے جارہے ہیں۔ لیکن اگر میں اس کو جان بھی لیتا تو یہ غیر ضروری بحث ہے کہ کسی نے اعتراض کیا تو کیوں کیا۔ ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا اعتراض معقول ہے یا نا معقول۔ معقول اعتراض ہوتا تو اسے مان لیتے ہیں یا اس کا معقول جواب دیتے ہیں اور اگر نا معقول اعتراض ہوتا ہے تو اسے ہوا میں تحلیل ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔