عورت اور عورت کا جنسی اختلاط
سوال: ان دنوں زنانہ کالجوں کے مسموم فضا میں لڑکیوں کے اندر عجیب و غریب وبائیں پھیل رہی ہیں۔ بالعموم دو لڑکیوں کی دوستی خلوص اور محبت کی حدوں سے گزر کر جنسی محبت کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ شرعاً یہ کس درجے کا گناہ ہے؟ کبیرہ یا صغیرہ؟
جواب: مرد اور مرد کی جنسی محبت جتنا بڑا گناہ ہے، عورت اور عورت کی محبت بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ اخلاقی حیثیت سے ان دونوں میں نہ نوعیت کا فرق ہے اور نہ درجے کا۔ افسوس ہے کہ یہ نام نہاد ’’ادب لطیف‘‘ جو رسالوں، افسانوں اور ناولوں کی شکل میں گھر گھر پہنچ رہا ہے اور یہ فحش تصویریں اور فلم جنہیں آزادی کے ساتھ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی دیکھ رہی ہیں، اور یہ عشق آموز گانے جو ریڈیو کی برکت سے بچے بچے کی زبان سے چل رہے ہیں اور یہ اختلاط مرد و زن جس کو روز بروز ہماری سوسائٹی میں فروغ نصیب ہورہا ہے، ان ساری چیزوں نے مل کر نوجوان مردوں کی طرح نوجوان لڑکیوں کو بھی غیرمعمولی جذباتی ہیجان میں مبتلا کردیا ہے۔ شہوانی جذبات کی ایک بھٹی ہے جو سینوں میں بھڑکادی گئی ہے اور بہت سے دھونکیاں ہر آن اسے زیادہ اور زیادہ بھڑکانے میں لگی ہوئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بگاڑ اب تک زیادہ تر مردوں میں پایا جاتا تھا وہ ایک وبا کی طرح شریف گھروں کی لڑکیوں اور درس گاہوں کی طالبات اور استانیوں میں پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ جن خواتین کو زنانہ درس گاہوں کے حالات قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، ان کی اطلاع ہے کہ آج لڑکیوں میں جو بے حیائی، بے باکی، جنسی مسائل پر کھلی کھلی گفتگو کرنے کی جرأت اور جنسی رجحانات… فطری اور غیرفطری، ہر دو طرح کے رجحانات… کے اظہار و اعلان کی عام جسارت پائی جاتی ہے، چند سال پہلے تک اس کا تصور کرنا مشکل تھا۔ اب لڑکیوں میں یہ چرچے عام ہورہے ہیں کہ کون سی صاحبزادی کس استانی کی منظور نظر ہیں، اور کون سی صاحبزادی کس دوسری صاحبزادی کی عشق میں مبتلا ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
لطف یہ ہے کہ اس جہنم کی طرف جو لوگ اپنی قوم کو دھکیل رہے ہیں، وہ اپنی اب تک کی کوششوں کے نتائج سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ انہیں حسرت یہ ہے کہ کاش ملاّ مخالفت و مزاحمت راہ میں حائل نہ ہوتی تو وہ ترقی کے مزید قدم ذرا جلدی اٹھاسکتے!
(ترجمان القرآن، رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ، جون، جولائی ۱۹۵۲ء)