خنزیر اور درندوں کا گوشت حرام کیوں ہے؟
سوال: قرآن مجید میں چند چیزیں حرام کیوں قرار دی ہیں؟ طبی نقطہ نگاہ سے یا کسی اور وجہ سے ان میں کیا نقصانات ہیں؟ خنزیر کو خاص طور پر نام لے کر کیوں شدت سے حرام قرار دیا گیا ہے؟ کیا یہ سب سے زیادہ مضر حیوان ہے؟ چیرنے پھاڑنے والے جانور اور خون وغیرہ کیوں حرام قرار دیے گئے ہیں؟
جواب: قرآن مجید میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیا گیا ہے ان کی حرمت میں ممکن ہے کہ ضمناً کچھ لحاظ ان کے طبی نقصانات کا بھی ہو، مگر اصل وجہ حرمت طبی نہیں بلکہ اخلاقی اور اعتقادی ہے۔ بعض چیزیں اعتقادی بنیادوں پر حرام کی گئی ہیں جیسے ’’ِمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللہ‘‘ (یعنی وہ جانور جسے اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو) اور بعض چیزیں اخلاقی نقصانات کی وجہ سے حرام قرار دی گئی ہیں، جیسے خنزیر۔ ان چیزوں کے اخلاقی نقصانات کا ہمیں پورا علم نہیں ہے، مگر کسی حد تک اپنے مشاہدات کی بنا پر ہم ان کو جان سکتے ہیں۔ مثلاً خنزیر کے متعلق دنیا کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس کا گوشت نہایت بے حیائی پیدا کرنیوالا ہے، جو قومیں اسے کثرت سے استعمال کرتی ہیں، ان کے اخلاقی حالات اس پرگواہ ہیں۔ دنیا میں شاید خنزیر ہی ایک ایسا جانور ہے جس کی ایک مادہ کے گرد بہت سے نر جمع ہوجاتے ہیں اور باری باری اس سے ایک دوسرے کے سامنے جفتی کرتے ہیں۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ بے حیائی کی یہ خاص نوعیت کن قوموں میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، جن قوموں کے آدابِ مجلس میں (Etiquette) یہ چیز داخل ہو کہ مجلس میں ایک شخص کی بیوی لازماً دوسرے شخص کے پہلو میں بیٹھے اور بال روم میں اپنی بیوی کیساتھ خود ناچنا رشک و تنگ دلی کی علامت ہو اور اسے دوسروں کیساتھ سینے سے سینہ ملا کر ناچنے کے لیے چھوڑدینا فراخ دلی اور مروت کی دلیل سمجھی جائے، ان کے اس اخلاقی تخیل کا ماخذ اگر آپ تلاش کریں گے تو بعید نہیں کہ اس کا سراغ اس جانور کی جبلت ہی میں آپ کو مل جائے، جس کا گوشت ان کے ہاں کثرت سے کھایا جاتا ہے۔ اسی طرح درندہ جانوروں کے متعلق بھی ہم یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ ان کا استعمال خونخواری پیدا کرنے والا ہے۔ بہتے ہوئے خون یا بہائے ہوئے خون کے استعمال سے بھی درندگی اور قساوت کا پیدا ہونا کچھ بعیدازقیاس نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن ذیقعدہ، ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ، ستمبر ۱۹۵۱ء)