نظام کفرو فسق میں کسب معاش کی مشکل
سوال: آپ کی تحریروں کو دیکھنے کے بعد میں اپنے موجودہ معاش سے بیزار ہوں لیکن کافرانہ نظام حکومت و تمدن کے ماتحت کسب حلال تقریباً ناممکن التصور ہے۔ ملازمت، کاشت کاری اور تجارت سب پیشوں میں حرام داخل ہوگیا ہے۔ پھر ہمارے لیے کون سا راستہ ہے؟
جواب: آپ کا کہنا بجا ہے کہ ایک کافرانہ نظام تمدن و سیاست کے اندر رہتے ہوئے خالص حلال کی روٹی تقریباً محال ہے، مگر میں نے وسائل رزق کے معاملہ میں حلال و حرام کی تمیز پر اپنے مضامین میں بار بار جو زور دیا ہے، اس سے میرا مقصود یہ نہیں تھا کہ حلال ذرائع یہیں کہیں موجود ہیں۔ لوگ حرام ذرائع کو چھوڑ کر ان کو حاصل کرلیں۔بلکہ اس سے میرا مقصود یہ تھا کہ حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوجانے کے بعد ایک سچا مسلمان جب اپنے گردو پیش کا جائزہ لے گا، تب اس کو صحیح اندازہ ہوگا کہ اس کفر کے تسلط کی بدولت وہ کس طرح چاروں طرف گندگیوں اور نجاستوں میں گھر گیا ہے پھر اگر واقعی وہ پاکیزگی کا خواہاں ہو تو اس کے اندر اس نجاست خیز نظام کو مٹانے اور بدلنے کا شدیدجذبہ پیدا ہوگا۔ اور وہ ہر آن اس نظام سے سخت نفرت و کراہت کرے گا۔
اس اصولی بات کو سمجھنے کے بعد عملی نقطہ نظر سے ہمارے لیے اگر کچھ ممکن ہے تو صرف یہ کہ زیادہ حرام کو چھوڑ کر کم حرام یا ملوث بہ حرام رزق کو مجبوراً گوارا کرلیں۔ خالص حلال کی قید کے ساتھ زندگی کا سامان بہم پہنچنا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔ اب یہ آپ کے حالات پر اور آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ عملاً کون سے ذرائع آپ اختیار کر سکتے ہیں جن میں حرام کی آمیزش کم سے کم ہو اور آپ موجودہ کافرانہ نظام کے بقاء و استحکام میں کم سے کم مدد گار بنیں۔ عملاًاس میں کامیابی کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آپ اپنی معیار زندگی کو بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ جن کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوچکی ہے، یہ شرط لگاتے ہیں کہ حلال تو ملے،مگر زندگی کا معیار وہی رہے جو حرام خوری کے زمانہ میں ہم نے اختیار کیا تھا۔یہ شرط انہیں مجبوراً اسی حرام خوری میں مبتلا رکھتی ہے، حلال خوری پر آدمی قائم اسی وقت رہ سکتا ہے، جب کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرلے کہ کھانا بہرحال حلال ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ پلاؤ ہو یا چٹنی، پہنتا بہرحال حلال ہے، خواہ وہ نفیس کپڑے ہوں یا ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا گاڑھا۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال۶۲ھ ستمبر، اکتوبر۴۳ء)