محرمات کی حرمت کی وجوہ
سوال: چند روز سے رفقاء کے درمیان محرمات کے سلسلے میں ایک مسئلہ زیرِ بحث ہے جو میں ذیل میں تحریر کرتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ ازراہِ کرم اس پر روشنی ڈال کر مشکور فرمائیں گے۔
مناکحت کے سلسلے میں ایک عورت اور دوسری عورت میں کیوں امتیاز کیا گیا ہے کہ بعض کو عقد میں لایا جاسکتا ہے اور بعض محرمات کی فہرست میں آتی ہیں؟ اگرچہ ابتدائے انسانیت میں ایسی کوئی قید نظر نہیں آتی ہے جیسا کہ ہابیل اور قابیل کے قصے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ کیا اس قسم کی شادیاں حیاتیاتی مفاسد کا موجب بھی بن سکتی ہیں؟
امید ہے کہ آپ اس کا جواب ترجمان القرآن میں شائع فرمادیں گے تاکہ دیگر حضرات کے لیے بھی استفادے کا باعث ہو۔
جواب: محرمات کی فہرست میں جن عورتوں کو شامل کیا گیا ہے، ان کے حرام ہونے کی اصل وجہ حیاتیاتی حقائق نہیں ہیں بلکہ اخلاقی اور معاشرتی حقائق ہیں۔ آپ خود غور کریں کہ جس ماں کے شہوانی جذبات بھی اپنے بیٹے کے متعلق ہوسکتے ہوں، کیا وہ ان پاکیزہ و مطہر جذبات کے ساتھ بیٹے کو پال سکتی ہے جو ماں اور بیٹے کے تعلقات میں ہونے چاہئیں؟ اور کیا بیٹا ہوش سنبھالنے کے بعد ماں کے ساتھ وہ معصومانہ بے تکلفی برت سکتا ہے جو ماں اوربیٹے کے درمیان اب ہوتی ہے؟
اور کیا ایک گھر میں باپ اور بیٹے کے درمیان رقابت اور حسد کے جذبات پیدا نہ ہوجائیں گے اگر ماں اور بیٹے کے درمیان ابدی حرمت کی دیوار حائل نہ ہو؟
ایسا ہی معاملہ بہن اور بھائی کا بھی ہے اگر ابدی حرمت ان کے درمیان قائم نہ ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ بھائی بہن ایک دوسرے کے ساتھ معصوم روابط اور شہوت کے ساتھ پاک محبت اور شبہات سے بالاتر بے تکلفی برت سکتے؟ کیا اس صورت میں بھی یہ ممکن ہوتا کہ والدین اپنے بیٹوں کو سنِ بلوغت کے قریب پہنچنے پر ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوشش نہ کرتے؟ اور کیا کوئی شخص بھی کسی لڑکی سے شادی کرتے وقت یہ اطمینان کرسکتا کہ وہ اپنے بھائیوں سے بچی ہوئی ہوگی؟
پھر اگر خسر اور بہو کے درمیان، ساس اور داماد کے درمیان ابدی حرمت کی دیواریں حائل نہ کردی جاتیں تو کس طرح ممکن تھا کہ باپ اور بیٹے اور ماں اور بیٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ رقیبانہ کشمکش میں مبتلا ہونے اور ایک دوسرے کو شبہ کی نظر سے دیکھنے سے بچ جائیں؟
اس پہلو پر اگر غور کریں تو آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ شریعت نے کن اہم اخلاقی و معاشرتی مصلحتوں کی بنا پر ان تمام مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے لیے حرام کردیا ہے جن کے درمیان ایک گھر، ایک خاندان اور ایک دائرہ معاشرت کے اندر قریب ترین روابط اور بے تکلف روابط فطرتاً اور معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے ہونے چاہئیں۔ بیٹے اور بیٹیاں پل ہی نہیں سکتیں اگر ماں اور باپ دونوں اس طرف سے مطمئن نہ ہوں کہ ان میں سے کسی کا بھی کوئی شہوانی علاقہ اپنی اولاد کے ساتھ نہیں ہے۔ ایک ہی گھر میں لڑکوں اور لڑکیوں کا پلنا غیرممکن ہوجائے۔ اگر بہن کے معاملے میں بھائیوں کے درمیان اور بھائی کے معاملے پر بہنوں کے درمیان شہوانی رقابتیں پیدا ہونے کا دروازہ قطعی طور پر بند نہ ہو۔ خالائیں اور پھوپھیاں اور چچا اور ماموں اگر شبہ سے بالاتر نہ کردیے جائیں تو بہن اپنی اولاد کو اپنے بھائی بہنوں سے اور بھائی اپنی اولاد کو اپنے بھائی بہنوں سے بچانے کی فکر میں لگ جائیں۔
(ترجمان القران۔ ذی القعدہ، ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ، ستمبر ۱۹۵۱ء)