اسلام میں غلامی کو قطعاً ممنوع کیوں نہ کردیا گیا؟
سوال :غلامی سے متعلق اسلام میں ضوابط ایسے مقرر کیے گئے ہیں جن سے شبہ ہوتا ہے کہ اس ادارے کو مستقل طور پر باقی رکھنا مقصود ہے، مگر دوسری طرف ایسے احکام بھی موجود ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو کوئی پسندیدہ چیز نہیں سمجھا گیا تھا بلکہ غلاموں کی رہائی اور آزادی ہی محبوب و مرغوب تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب غلامی مکروہ اور آزادی مرغوب تھی تو اس طریقے کو ممنوع کیوں نہیں کردیا گیا؟
جواب: غلامی کے بارے میں آپ نے جو سوال کیا ہے، اس کا جواب آپ کو بآسانی مل جاتا اگر آپ ’’تفہیمات‘‘ (حصہ دوم) اور ’’رسائل و مسائل‘‘ (جلد اول) میں میری تصریحات ملاحظہ فرمالیتے۔ غلامی کو بالکل موقوف نہ کردینے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے اسے محض ایک جنگی ضرورت کی حیثیت سے باقی رکھا ہے اور یہ ضرورت ہر ایسے موقع پر پیش آسکتی ہے جبکہ ہمارا کسی دشمن سے اسیران جنگ کے مبادلے یا فدیے پر معاہدہ نہ ہوسکے اور ہماری حکومت جنگی قیدیوں کو بلا فدیہ و بلا مبادلہ چھوڑ دینا ملکی صالح کے خلاف سمجھے۔ شاذ مواقع سے قطع نظر کرکے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں اٹھارویں صدی عیسوی کے اختتام تک اسیرانِ جنگ کے مبادلے کا طریقہ رائج نہ تھا، نہ اس امر کا کوئی امکان تھا کہ مسلمان حکومتیں دشمن کے جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر اپنے جنگی قیدیوں کو بھی چھڑاسکتیں اور اب اگر دنیا میں مبادلہ اسیرانِ جنگ کا طریقہ رائج ہوا ہے تو وہ کسی مذہبی حکم کی بنا پر نہیں بلکہ ایک مصلحت کی بنا پر ہے جسے کوئی قوم جب چاہے نظرانداز کرسکتی ہے۔ آج یہ ناممکن نہیں ہے کہ ہمارا کسی ایسے ہٹ دھرم دشمن سے سابقہ پیش آجائے جو مبادلہ اسیرانِ جنگ کی تجویز کو ٹھکرادے اور ہمارے جنگی قیدیوں کو کسی شرط پر بھی چھوڑنے کے لیے راضی نہ ہو۔ اب آپ خود سوچیں کہ اگر اسلام ہمیں بہرحال جنگی قیدیوں کی رہائی کا پابند کردیتا تو کیا یہ حکم ہمارے لیے وجہ مصیبت نہ بن جاتا؟ کیا کوئی قوم بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس نقصان کی متحمل ہوسکتی ہے کہ ہر لڑائی میں اس کے آدمی دشمن کے پاس قید ہوتے رہیں اور وہ دشمن کے آدمیوں کو چھوڑتی جائے؟ اور کیا کوئی دشمن بھی ایسا بیوقوف ہوسکتا ہے وہ ہم سے کبھی اسیرانِ جنگ کے مبادلے کا معاہدہ کرنے پر آمادہ ہو جبکہ اسے اطمینان ہو کہ ہم بہرحال اپنے مذہبی احکام کی بنا پر اس کے آدمیوں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں؟
اس سلسلے میں ایک اور سوال پر بھی غور کرلیجیے۔ کسی شخص کو عمر بھر جیل میں رکھنا یا اس سے جبری محنت لینا اور اسے موجودہ دور کے انسانی باڑوں (Camps) میں رکھنا آخر کس دلیل کی بنا پر غلامی سے بہتر سمجھا جاسکتا ہے؟ غلامی میں تو نسبتاً اس سے زیادہ آزادی رہتی ہے۔ آدمی کو شادی بیاہ کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ ایک آدمی کو براہِ راست ایک آدمی سے واسطہ پڑتا ہے جس میں زیادہ انسانی سلوک کا امکان ہے اور ایک غلام اپنے آقا کو خوش کرکے یا اسے فدیہ دے کر آزادی بھی حاصل کرسکتاہے۔ پہلے ذرا اس سلوک کا مطالعہ کرلیجیے جو روس اور جرمنی میں دشمن کے جنگی قیدیوں کے ساتھ نہیں، خود اپنے ملک کے سیاسی ’’مجرمین‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے۔ پھر فیصلہ کیجیے کہ اگر کبھی ایسے دشمن سے ہمیں سابقہ پیش آجائے اور وہ ہمارے جنگی قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک کرنے لگے تو کیا اس کے جواب میں ہم کو بھی یہی وحشیانہ سلوک کرنا چاہیے؟ یا اس سے بہتر اور زیادہ مبنی بر انسانیت سلوک وہ ہے جو اسلام نے ہم کو غلاموں سے کرنے کی اجازت اور ہدایت دی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ، جون، جولائی ۱۹۵۲ء)