ایک نوجوان کے چند سوالات
سوال: (۱) ہمیں یہ کیونکر معلوم ہو کہ ہماری عبادت خامیوں سے پاک ہے یا نہیں اور اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہورہا ہے یا نہیں؟… قرآن و حدیث کے بعض ارشادات جن کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو روزے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، بہت سے لوگ اپنی نمازوں سے رکوع و سجود کے علاوہ کچھ نہیں پاتے، یا یہ کہ جو کوئی اپنے عابد سمجھے جانے پر خوش ہو نہ صرف اس کی عبادت ضائع ہوگئی بلکہ وہ شرک ہوگی اور اس طرح سے دیگر تنبیہات جن میں سے عبادت کے لیے بے صلہ ہوجانے اور سزا دہی کی خبر دی گئی ہے، دل کو نا امید و مایوس کرتی ہیں۔
اگر کوئی شخص اپنی عبادت کو معلوم شدہ نقائص سے پاک کرنے کی کوشش کرے اور اپنی دانست میں کر بھی لے تو پھر بھی ممکن ہے کہ اس کی عبادت میں کوئی ایسا نقص رہ جائے جس کا اسے علم نہ ہوسکے اور یہ نقص اس کی عبادت کو لاحاصل بنادے… اسلام کا مزاج اس قدر نازک ہے کہ اپنی بشریت کے ہوتے ہوئے اس کے مقتضیات کو پورا کرنا ناممکن سا نظر آتا ہے۔
(۲) توجہ اور حضور قلب کی کمی کیا نماز کو بیکار بنادیتی ہے؟ نماز کو اس خامی سے کیونکر پاک کیا جائے؟
نماز میں عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نہایت بے حضوری قلب پیدا ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ ہم سوچتے ایک زبان میں ہیں اور نماز دوسری زبان میں پڑھتے ہیں۔ اگر آیات کے مطالب بھی سمجھ لیے جائیں تب بھی ذہن اپنی زبان میں سوچنے سے باز نہیں رہتا۔
(۳) اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ان اعمال کے صلہ کا وعدہ کیا گیا ہے جن کا تمام مقصد اور تمام محرک صرف اس کی خوشنودی اور رضا کا حصول ہو۔ مثلاً اگر کسی کی غربت اور بے کسی پر رحم کھا کر ہم اس کی مدد کریں اور مدد کرنے میں اس کو ممنون کرنے یا اس سے آئندہ کوئی کام نکالنے یا کچھ لینے کا خیال نہ ہو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کا واسطہ منظور ہو تو کیا یہ بھی شرک ہے؟ کیونکہ اس کے ساتھ سلوک کرنے کا ابتدائی محرک ہماری رقت قلب ہے۔ جس طرح آپ کے نزدیک خدمت ملت میں اگر کہیں قومیت کا رنگ پیدا ہوجائے تو عبادت نہیں رہتی۔
(۴) ’’پردہ‘‘ پڑھنے سے کافی تشفی ہوئی لیکن اکثر مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں الجھاؤ رفع نہیں ہوتا۔
ایک ایسا شخص جسے اس کے موجودہ حالات اور معاشی وسائل نکاح کرنے کی اجازت نہ دیں وہ آج کل کے زمانے میں کیونکر اپنی زندگی پاک بازی سے بسر کرے؟ میں نے اس کا جواب جس کسی سے بات کی، نفی میں پایا۔ ایک طرف موجودہ ماحول کی زہرناکیاں اور دوسری طرف چشم و گوش کی بھی حفاظت کا مطالبہ، ناممکن العمل معلوم ہوتا ہے۔ کہاں آنکھیں میچیں اور کہاں کانوں میں انگلیاں دیجیے اور پھر یہ کہ برے خیالات کی آمد کیونکر روکے؟ اول تو ہم اپنے خیالات کی آمد و رفت پر کوئی اختیار نہیں رکھتے اور اگر اس کی کوشش بھی کی جائے تو ایک ذہنی خلفشار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا جو اور خراب کن ہے۔ سیلف کنٹرول (Self Control) جن سازگار حالات میں قابل عمل ہو صرف انہی حالات میں کارگر اورمفید ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں جہاں ہر وقت برانگیختگی کے فوج در فوج سامان ہو اپنے آپ سے لڑنا اپنی شخصیت کو ہلاکت کی دعوت دینا ہے۔ ایک صاحب جو میڈیکل سائنس میں اس سال ڈاکٹریٹ کی سند لے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ اس صورت میں نکاح جو کہ حاصل نہیں ہے، اس کے علاوہ نیچرل طریق پر تسکین حاصل کرنا ہی صرف اس ذہنی انتشار پر تذلیل نفس سے نجات دے سکتا ہے۔ نفسیات کے ماہرین بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں۔
کیا آپ یہ بتائیں گے کہ بحالتِ مجبوری مذکورہ بالا رائے پر عمل پیرا ہوجانا کس حد تک گناہ ہوگا اور اگر یہ سراسر گناہ ہے تو پھر ان حالات میں صحیح راستہ کیا ہوگا جو معقول اور قابل عمل ہو؟ امید ہے کہ آپ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے نفسیات انسانی کے حقائق کی پوری رعایت فرمائیں گے؟
جواب: (۱) اسلام کا مزاج بلاشبہ بہت نازک ہے مگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی اطاعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔ قرآن و حدیث میں جن چیزوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے وہ عبادات کو باطل یا بے وزن کرنے والی ہیں ان کے ذکر سے دراصل عبادات کو مشکل بنانا مطلوب نہیں ہے بلکہ انسان کو ان خرابیوں پر متنبہ کرنا مقصود ہے تاکہ انسان اپنی عبادات کو ان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے اور عبادات میں وہ روح پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہو جو مقصود بالذات ہے۔ عبادات کی اصل روح تعلق باللہ، اخلاص اللہ اور تقویٰ و احسان ہیں۔ اس روح کو پیدا کرنے کی کوشش کی کیجیے اور ریا سے، فسق سے، دانستہ نافرمانی سے بچئے۔ ان ساری چیزوں کا محاسبہ کرنے کے لیے آپ کا اپنا نفس موجود ہے۔ وہ خود ہی آپ کو بتاسکے گا کہ آپ کی نماز میں، آپ کے روزے میں، آپ کی زکوٰۃ اور حج میں کس قدر اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور اس کی اطاعت کا جذبہ موجود ہے اور ان عبادتوں کو آپ نے فسق و معصیت اور ریا سے کس حد تک پاک رکھا ہے۔ یہ محاسبہ اگر آپ خود کرتے رہیں تو انشاء اللہ آپ کی عبادتیں بتدریج خالص ہوتی جائیں گی اور جتنی جتنی وہ خالص ہوں گی، آپ کا نفس مطمئن ہوتاجائے گا۔ ابتدا میں جو نقائص محسوس ہوں، ان کا نتیجہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ آپ مایوس ہو کر عبادت چھوڑدیں بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اخلاص کی پیہم کوشش کرتے جائیں۔ خبردار رہیں کہ عبادت میں نقص کا احساس پیدا ہونے سے جو مایوسی کا جذبہ ابھرتا ہے، اسے دراصل شیطان ابھارتا ہے اور اس لیے ابھارتا ہے کہ آپ عبادت سے باز آجائیں۔ یہ شیطان کا وہ پوشیدہ حربہ ہے جس سے وہ طالبین خیر کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ان کوششوں کے باوجود یہ معلوم کرنا بہرحال کسی انسان کے امکان میں نہیں کہ اس کی عبادت کو قبولیت کا درجہ حاصل ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اس کو جاننا اور اس کا فیصلہ کرنا صرف اس ہستی کا کام ہے جس کی عبادت آپ کر رہے ہیں اور جو ہماری اور آپ کی عبادتوں کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہر وقت اس کے غضب سے ڈرتے رہیے اور اس کے فضل کے امید وار رہیے۔ مومن کا مقام بین الخوف و الرجاء ہے۔ خوف اس کو مجبور کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بہتر بندگی بجالانے کی کوشش کرے اور امید اس کی ڈھارس بندھاتی ہے کہ اس کا رب کسی کا اجر ضائع کرنے والانہیں ہے۔
(۲) توجہ اور حضور قلب کی کمی نماز میں نقص ضرور پیدا کرتی ہے۔ لیکن فرق ہے اس بے توجہی میں جو نادانستہ ہو اور اس میں جو دانستہ ہو۔ نادانستہ پر موخذہ نہیں ہے بشرطیکہ انسان کو دوران نماز میں جب کبھی اپنی بے توجہی کا احساس ہوجائے، اسی وقت وہ خدا کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کرے، اور اس معاملے میں غفلت سے کام نہ لے۔ رہی دانستہ بے توجہی، بے دلی کے ساتھ نماز پڑھنا اور نماز میں قصداً دوسری باتیں سوچنا، تو بلا شبہ یہ نماز کو بیکار کردینے والی چیز ہے۔
عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر جو بے حضوری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کی تلافی جس حد تک ممکن ہو، نماز کے اذکار کا مفہوم ذہن نشین کرنے سے کر لیجیے۔ اس کے بعد جو کمی رہ جائے، اس پر آپ عنداللہ ماخوذ نہیں ہیں، کیوں کہ آپ حکم خدا اور رسول ﷺ کی تعمیل کر رہے ہیں۔ اس بے حضوری پر آپ سے اگر مواخذہ ہوسکتا تھا تو اس صورت میں جب کہ خدا اور رسول ﷺ نے آپ کو اپنی زبان میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہوتی اور پھر آپ عربی میں نماز پڑھتے۔
(۳) آپ کا تیسرا سوال واضح نہیں ہے۔ اگر کسی کی غربت و بے کسی پر رحم کھا کر آپ صرف اللہ کے واسطے اس کی مدد کریں تو یہ فعل ظاہر ہے کہ خالص رضائے الٰہی کے حصول کے لیے ہوگا۔ اس کے شرک ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور اس سے میرے قول کی نفی کیسے لازم آتی ہے؟ اس کی ابتدائی محرک آپ کی رقت قلب ہی سہی، مگر رقت قلب کی تحریک پر جو کام آپ نے کیا، وہ تو اللہ کا پسندیدہ کام ہی کیا، اور اس غرض کے لیے کیا کہ اللہ اسے پسند فرمائے۔ اسی طرح اگر آپ اپنی قوم کی کوئی خدمت اس طریقے پر کریں جو اللہ کا پسندیدہ طریقہ ہو، اور اس غرض کے لیے کریں کہ اللہ اس خدمت سے خوش ہو تو یہ عین عبادت ہے۔ میں جس چیز کا مخالف ہوں وہ تو یہ ہے کہ قوم کی خاطر وہ کام کیے جائیں جو اللہ کو پسند نہیں ہیں اور ایسے طریقوں سے کیے جائیں جو اللہ کی بتائی ہوئی راہ کے خلاف ہیں۔
(۴) آپ کا یہ سوال ان اہم مسائل میں سے ہے جن کی بنا پر ہم موجودہ ناپاک ماحول کے خلاف اجتماعی جدوجہد کی ضرورت پر برسوں سے زور دے رہے ہیں۔ بلاشبہ آج کل کے ماحول نے افراد کے لیے پاک باز رہنا سخت مشکل بنادیا ہے۔ لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ اس ماحول کی خرابی کو حیلہ بنا کر افراد اپنے لیے اخلاقی بے قیدی کے جواز کی راہیں نکالنے لگیں۔ بلکہ اس کا صحیح حل یہ ہے کہ اس ماحول کی ناپاکی کا جتنا زیادہ شدید احساس آپ کے اندر پیدا ہو، اسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ آپ اسے بدلنے کی جدوجہد میں حصہ لیں۔ رہیں وہ مشکلات جو اس جدوجہد کے دوران میں ایک نوجوان کو اس ناپاک ماحول کے اندر پیش آسکتی ہیں، تو ان کا علاج یہ ہے کہ جن ہیجان خیز چیزوں سے آپ بچ سکتے ہیں، ان سے بچئے، مثلاً سینما، فحش تصویریں، مخلوط سوسائٹی، بے پردہ عورتوں کو دانستہ گھورنا یا ان کی صحبت میں بیٹھنا۔ اس کے بعد جو اضطراری محرکات باقی رہ جاتے ہیں، وہ اتنے زیادہ اشتعال انگیز نہیں رہتے کہ آپ ان کی وجہ سے بندش تقویٰ کو توڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ آپ کے ڈاکٹر دوست اور جن ماہرین نفسیات کا آپ ذکر کررہے ہیں، دراصل اس بات سے ناواقف ہیں کہ زنا انسانی تمدن و اخلاق کے لیے کس قدر شدید مفسد و مخرب چیز ہے۔ اگر وہ اس چیز کی برائیوں سے واقف ہوں تو کسی انسان کو یہ مشورہ نہ دیں کہ وہ محض اپنے نفس کی تسکین کے لیے سوسائٹی کے خلاف اتنے سخت جرم کا ارتکاب کر گزرے۔ کیا یہ لوگ کسی شخص کو یہ مشورہ دینے کی جرأت کریں گے کہ جب کسی کے خلاف اس کا جذبہ انتقام ناقابلِ برداشت ہوجائے تو وہ اسے قتل کردے؟ اور جب کسی چیز کے حاصل کرنے کی خواہش اسے بہت ستائے تو وہ چوری کرڈالے؟ اگر ایسے مشورے دینا وہ ناجائز سمجھتے ہیں تو جذبہ شہوت کی تسکین کے لیے وہ زنا کا مشورہ دینے کی جرأت کیسے کرسکتے ہیں۔ حالانکہ زنا کسی طرح بھی قتل اور چوری سے کم جرم نہیں ہے۔ آپ اس جرم کی شدت کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر میری کتاب ’’پردہ‘‘ کے وہ حصے پڑھئے جن میں، میں نے زنا کے اجتماعی نقصانات پر بحث کی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، ربیع الآخر ۱۳۷۰ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)