خاتم النبیین کے بعد دعوائے نبوت
سوال: ’’ترجمان القرآن (جنوری، فروری) کے صفحہ ۲۳۶ پر آپ نے لکھا ہے کہ میرا ’’تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جھوٹ کو فروغ نہیں دیتا۔ میرا ہمیشہ سے یہ قاعدہ رہا ہے کہ … جن لوگوں کو میں صداقت و دیانت سے بے پروا اور خوف خدا سے خالی پاتا ہوں، ان کی باتوں کا کبھی جواب نہیں دیتا … خدا ہی ان سے بدلہ لے سکتا ہے … اور ان کا پردہ انشاء اللہ دنیا ہی میں فاش ہوگا۔‘‘ میں عرض کردوں کہ میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے کام سے دلچسپی ہے۔ میرے مندرجہ ذیل استفسارات اسی ضمن میں ہیں:
۱۔ یہ صرف آپ ہی کا تجربہ نہیں، بلکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’ اللہ تعالیٰ کاذبوں سے محبت نہیں کرتا‘‘ اور ’’اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر‘‘۔ اور پھر اسی قسم کے جھوٹوں پر کہ
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ…
ان کی سزا تو فوری گرفت اور وصال جہنم ہے،
لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ(الحاقہ:45,46 )
اس صورت میں اگر مرزا صاحب جھوٹے تھے تو کیا وجہ ہے کہ
(ا) ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ان پر گرفت نہیں کی؟
(ب) ان کی جماعت بڑھ رہی ہے اور مرزا صاحب کے مشن کو جو مسلمانوں کے نزدیک گمراہ کن ہے، تقویت پہنچ رہی ہے اور اب تو اس جماعت کی جڑیں بیرونی ممالک میں مضبوط ہوگئی ہیں۔
(ج) مرزا صاحب کے پیغام کو ساٹھ سال ہوگئے ہیں۔ ہم کب تک خدائی فیصلے کا انتظار کریں؟ فی الحال تو وہ ترقی کر رہے ہیں۔
(د) جو جماعتیں یا افراد اس گروہ کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ کیوں اسے ترک نہیں کر دیتے اور معاملہ خدا پر چھوڑ دیتے؟
۲۔ صفحہ ۲۴۲ پر آپ کی جماعت کے ایک جرمنی نژاد ہمدرد نے برلن میں جماعت احمدیہ کے ساتھ تبلیغ اسلام میں تعاون کا ذکر کیا ہے۔ اگر آپ بھی ان کی تبلیغ اسلام کو صحیح سمجھتے ہیں تو پاکستان میں ان کے ساتھ تعاون کیوں نہیں کرتے؟
جواب: آپ جس سرسری نظر سے ایک مدعی نبوت کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں، یہ طریقہ ایسے اہم معاملے پر رائے قائم کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا تھا، وہ تو سراسر ایک جھوٹے الزام کے بارے میں تھا جو بعض خود غرض لوگوں نے میرے اوپر لگایا تھا۔ اس بات کو آپ چسپاں کررہے ہیں ایک ایسے شخص کے معاملے پر جس نے فی الواقع نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ایک مدعی نبوت کے معاملے میں لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک صورت پیش آتی ہے، اگر وہ سچا ہے تو اس کو نہ ماننے والا کافر، اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کو ماننے والا کافر۔ ایک ایسے نازک معاملے کا فیصلہ آپ صرف اتنی سی بات پر کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابھی تک ان پر کوئی گرفت نہیں کی، اور ان کی جماعت بڑھ رہی ہے اور یہ کہ ’’ہم کب تک خدائی فیصلہ کا انتظار کریں‘‘۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے اور اس کی جماعت ترقی کرتی نظر آئے اور آپ کی تجویز کردہ مدت کے اندر اس پر خدا کی طرف سے گرفت نہ ہو تو بس یہ باتیں اس کو نبی مان لینے کے لیے کافی ہیں؟ کیا آپ کے ذہن میں نبوت کو جانچنے کے معیار یہی ہے ؟
آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ سے جو استدلال آپ نے کیا ہے، و ہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ محمدؐ جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، اگر خدا کی وحی کے بغیر کوئی بات خود تصنیف کرکے خدا کے نام سے پیش کردیں تو ان کی رگ گلو کاٹ دی جائے گی۔اس سے یہ معنی نکالنا صحیح نہیں ہے کہ جو شخص حقیقت میں نبی نہ ہو اور غلط طور پر اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کرے، اس کی رگ گلو بھی کاٹی جائے گی۔
نیز اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچے اور جھوٹے نبی کی پہچان کے لیے یہ بات ایک معیار کے طور پر پیش نہیں کی ہے کہ جس مدعی نبوت کی رگ گلو نہ کاٹی جائے، وہ سچا نبی ہے اور جس کی رگ کاٹ دی جائے، وہ جھوٹا مدعی۔ قرآن مجید کی آیتوں میں تاویل کی یہ کھینچ تان، جو ظاہر ہے کہ آپ کی اپنی اپچ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ مرزا صاحب کی جماعت سے ہی آپ نے سیکھی ہے، بجائے خود اس بات کی علامت ہے کہ یہ جماعت خوف خدا سے کس قدر خالی ہے۔
محمدﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے، اس کی بات کو ان معیاروں پر نہیں جانچا جائے گا جو آپ نے پیش کیے ہیں، بلکہ اسے پورے اطمینان کے ساتھ اس بنیاد پر رد کردیا جائے گا کہ قرآن و احادیث صحیحہ اس معاملے میں قطی ناطق ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ میں ان دلائل سے بھی واقف ہوں جو مرزا صاحب اور ان کے متبعین نے باب نبوت کے کھلے ہونے پر قائم کیے ہیں۔ مگر آپ سے صاف عرض کرتا ہوں کہ ان دلائل سے اگر کوئی متاثر ہوسکتا ہے تو وہ صرف ایک بے علم یا کم علم آدمی ہوسکتا ہے، ایک صاحب علم آدمی کو تو ان کے دلائل دیکھ کر صرف ان کے جہل ہی کا یقین حاصل ہوتا ہے۔
ترجمان القرآن میں جرمنی کا جو مکتوب شائع ہوا ہے، اس کی اشاعت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ہر بات ہمارے نزدیک سچی ہے۔ ہمارا مدعا تو یہ تھا کہ ہمارے ملک کے مسلمانوں کو اپنے جرمن نو مسلم بھائیوں کی حالت سے آگاہ کیا جائے اور ان کی مدد پر اکسایا جائے۔ وہ لوگ بیچارے نئے نئے مسلمان ہیں، ان کو کیا خبر کہ دنیا اسلام میں کس قسم کے فتنے اٹھ رہے ہیں۔ ان کو تو اسلام کے نام سے جو چیز جہاں سے بھی ملے گی، وہ اس سے اپنی تشنگی بجھانے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہمارا کام ہے کہ انہیں اسلام کے متعلق صحیح لٹریچر فراہم کرکے دیں۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ بے چارے نا واقفیت میں کسی فتنے کا شکار نہ ہوجائیں۔
سوال: آپ کا جواب ملا۔ افسوس کہ وہ میری تشفی کے لیے کافی نہیں ہے۔
میں نے آپ ہی کی دی ہوئی حقیقت ’’اللہ تعالیٰ خود جھوٹے کو سزا دے گا‘‘ کی روشنی میں پوچھا تھا کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی جو سب مسلمانوں کے نزدیک کاذب ہیں، ان پر کیوں خدا تعالیٰ کی گرفت نہیں ہوتی، اور یہ کہ خدا تعالیٰ کس طرح اپنے بندوں کو اتنے عرصے سے گمراہ ہوتے دیکھ رہا ہے؟
میں مرزا صاحب کی تصنیف کردہ تقریباً ۲۵ کتب تحقیقی نظر سے دیکھ چکا ہوں اور اس کے بعد علمائے اسلام کی بعض کتب بھی ان کے رد میں دیکھی ہیں، مجھے اعتراف ہے کہ میں نے آپ کی کوئی کتاب اس موضوع پر نہیں پڑھی۔ ویسے علما کی کتب کے متعلق میرامجموعی تاثر یہ ہے کہ:
انہوں نے مرزا صاحب کی تحریروں میں تحر یف کرکے غلط مطالب ان کی طرف منسوب کیے ہیں۔ جس موضوع پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے، اس پر انہیں عبور نہیں تھا۔ بعد میں میری خط و کتابت پر یہ لوگ عموماً خاموش رہے ہیں۔
مرزا صاحب کی کتب سے میں جو کچھ سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کی ذات اور اقوال یعنی ظاہر و باطن آنحضور ﷺ کے عشق سے پر ہے، میں اس بنیاد کو لے کر مرزاصاحب کے دعویٰ کی طرف بڑھا تھا اور اب مجھ پر ثابت ہوچکا ہے کہ:
(۱) مرزا صاحب کے دعوے قرآن اور اقوال نبیﷺ کے خلاف نہیں۔
(۲) مرزا صاحب کی نبوت آنحضرت ﷺ کی شان گھٹانے کے لیے نہیں، بلکہ اگر موسوی فیضان سے قریہ قریہ نبی ہوسکتے ہیں تو مقام محمدی ﷺ کے مطابق گاؤں گاؤں ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو بتائیں کہ ہم نے شریعت محمدیہ ﷺ پر عمل کرکے مکالمہ الٰہیہ حاصل کیا ہے۔ خود مرزا صاحب نے فرمایا ہے کہ:
’’ایں چشمہ رواں چوں بخلق خدا دہم
یک قطرہ زبحر کمال محمدؐ است‘‘
اب آپ نے پھر مجھے مرزا صاحب کے دعویٰ کو پرکھنے کی دعوت دی ہے تو کیا آپ براہ کرم قرآن کریم سے میری رہنمائی کے لیے مرزاصاحب کے کسی ایک دعوے کوجھوٹا ثابت کردیں گے؟
جواب: پچھلا خط آپ کی تشفی کے لیے کافی ہوجاتاہے، اگر آپ تشفی چاہتے۔ میں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں جو کچھ لکھا تھا وہ تو ان لوگوں کے بارے میں تھا جو مجھ پر ایک جھوٹا بہتان لگا رہے ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ پر یہ اعتماد ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ ضرور جھوٹوں کو سزا دے گا۔ مگر آپ اسے ایک مدعی نبوت کے دعویٰ کو جانچنے کے لیے معیار ٹھہرا رہے ہیں اور معیار بھی اس شان کے ساتھ کہ اگر مدعی کو سزا ملتی ہوئی نظر نہ آئے تو ضرور وہ اپنے دعوے میں سچا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ میرے قول کو مجھ پر حجت بنانے کی یہ کوشش جو آپ نے فرمائی ہے، یہ آخر کہاں تک معقول ہے؟ کیا میں نے اپنے خلاف بہتان لگانے والوں کے متعلق یہ بھی کہا تھا کہ اگر انہیں دنیا میں سب کی آنکھوں کے سامنے سزا نہ ملے تو ضرور مجھ پر ان کا بہتان سچا ہے؟ کیا واقعی لوگوں کے صادق و کاذب اور راہ یاب و گمراہ ہونے کے لیے یہ کوئی صحیح معیار ہے کہ جسے دنیا میں سزا مل جائے وہ جھوٹا اور گمراہ، اور جسے سزا نہ ملے وہ سچا اور ہدایت یافتہ؟
آپ عجیب بات فرما رہے ہیں کہ مرزا صاحب کے دعویٰ کو ۶۰ سال گزر چکے ہیں، آخر کوئی کب تک انتظار کرے۔ دعوائے نبوت کی صداقت کو پرکھنے کی یہ عجیب کسوٹی جو آپ نے تجویز فرمائی ہے، ذرا اس کی توضیح تو فرمائیے کہ ایک جھوٹے مدعی کو آپ کے نزدیک کس قسم کی سزا ملنی چاہیے؟ اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ غیب سے ایک ہاتھ بڑھے اور اس کی رگ گلو کاٹ دے تو میں عرض کروں گا کہ یہ سزا تو مسلیمہ تک کو نہیں ملی جس نے خود نبی ﷺ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ جو مدعی نبوت انسانوں کے ہاتھ مارا جائے، وہ جھوٹا ہے تو ان انبیا علیہم السلام کے متعلق آپ کیا فرمائیں گے جن کی نبوت کی تصدیق خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمادیا ہے کہ ان کی قوم نے انہیں قتل کردیا؟ قرآن مجید میں یہ آیات تو آپ کی نظر سے گزری ہی ہوں گی کہ
قُلْ قَدْ جَاءكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (آل عمران۔ رکوع ۱۹)
’’ان سے کہو: تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ہیں، جو بہت سی روشن نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی لائے تھے جس کا ذکر تم کرتے ہو، پھر اگر (ایمان لانے کے لیے یہ شرط پیش کرنے میں) تم سچے ہو تو ان رسول کو تم نے کیوں قتل کیا؟‘‘ اور
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بَآيَاتِ اللّهِ وَقَتْلِهِمُ الأَنْبِيَاء بِغَيْرِ حَقًّ (النساء۔ رکوع ۲۲)
’’آخر کار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں آپ کو ایک مرتبہ پھر اپنے انداز فکر پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ نبی کا دعویٰ اس طرح کے معیاروں پر نہیں جانچا جاتا۔ دیکھنے کی چیز تو یہ ہے کہ اس سے پہلے آئے ہوئے کلام الٰہی کی روشنی میں اس کا مقام کیا ہے؟ وہ چیزکیا لایا ہے اور اسی کی زندگی کیسی ہے؟ ان معیاروں پر کوئی شخص پورا نہ اترتا ہو تو آپ سخت غلطی کریں گے۔ اگر اس کے دعویٰ کو صرف اس بنا پر مان لیں گے کہ آپ کی آنکھوں نے اسے اس دنیا میں سزا ملتے نہیں دیکھا۔
جو تین معیار میں نے اوپر بیان کیے ہیں، ان میں سے موخرالذکر دو معیار ایسی صورت میں سرے سے قابل لحاظ ہی نہیں رہتے جبکہ پہلے ہی معیار سے کسی مدعی نبوت کا دعویٰ بخیریت نہ گزر سکے۔ جب قرآن اور احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہو کہ محمد ﷺ کے بعد اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا تو یہ دیکھنے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے کہ حضور ﷺ کے بعد دعوائے نبوت کرنے والا کیا لایا ہے اور کیسا انسان ہے۔ اگرچہ مرزا صاحب میرے نزدیک دوسرے اور تیسرے معیار کے لحاظ سے بھی مقام نبوت سے اس قدر فروتر ہیں کہ باب نبوت کھلا بھی ہوتا تو کم از کم کوئی معقول آدمی تو ان پر نبوت کا گمان نہیں کرسکتا تھا، لیکن میں اس بحث کو قرآن و حدیث کے ناطق فیصلے کے بعد غیر ضروری بھی سمجھتا ہوں اور خدا اور رسول ؐ کے مقابلے میں گستاخی بھی۔
یہ سوال کہ قرآن و حدیث سے باب نبوت کے قطعی طور پر بند ہونے کے دلائل کیا ہیں، اس کا متحمل نہیں کہ ایک خط میں اس کا جواب دیا جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے فرصت دی انشاء اللہ اس موضوع پر ایک مفصل مضمون لکھوں گا، ورنہ سورۂ احزاب کی تفسیر میں تو یہ بحث آنی ہی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان ۱۳۷۰ھ، جولائی ۱۹۵۱ء)