ملازمین کے حقوق
سوال: یہاں کے ایک ادارے نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ ملازمین کے معاوضہ جات اور دیگر قواعد ملازمت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہے۔ جہاں تک قرآن و حدیث اور کتب فقہ پر میری نظر ہے، اس بارے میں کوئی ضابطہ میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ اس لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں کہ کتاب و سنت کی روشنی اور عہد خلافت راشدہ اور بعد کے سلاطین صالحین کا تعامل اس بارے میں واضح فرمائیں۔ چند حل طلب سوالات جو اس ضمن میں ہوسکتے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) سال بھر میں کتنی رخصتیں باتنخواہ لینے کا استحقاق ہر ملازم کے لیے ہے؟
(۲) اتفاقی رخصتیں باتنخواہ کس قدر لینے کا حق ہے؟
(۳) ایام بیماری کی تنخواہ ملے گی یا نہیں؟
(۴)ملازمین کی تنخواہ کس اصول پر مقرر کی جائے؟
(۵) ملازم کے کنبہ کے افراد بڑھ جانے پر تنخواہ میں اضافہ ہونا چاہیے یا نہیں؟
(۶) رخصت حاصل کرنے کے لیے تحریری اجازت ضروری ہے یا نہیں؟
(۷) اعلیٰ و ادنیٰ ملازمین حقوق میں برابر ہوں گے یا کچھ تفاوت ہوگا؟
جواب: آپ کا سوال کافی غورو خوض اور تفصیلی جواب چاہتا ہے مگر میں مجبوراً مختصر جواب پر اکتفا کر رہا ہوں۔
شریعت میں ملازمین اور مزدورو ں کے حقوق کسی مفصل ضابطے کی شکل میں تو مذکور نہیں ہیں، مگر ایسے اصول ہمیں یقیناً دیے گئے ہیں، جن کی روشنی میں ہم تفصیلی ضوابط مرتب کرسکتے ہیں۔ دور خلافت راشدہ میں ان اصولوں کی بنا پر سرکاری و غیر سرکاری ملازمین سے جو معاملہ ہوتا تھا، اس کی تفصیلات حدیث و تاریخ میں یکجا موجود نہیں ہیں، بلکہ مختلف ابواب و فصول میں بکھری ہوئی ہیں۔ ان تفصیلات میں بھی آپ کے سوالات کا جواب شاید کم ہی ملے گا۔ میں اس وقت عرف عام اور اسلام کے معروف تصور انصاف پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کے سوالات کا مجمل جواب عرض کر رہا ہوں۔
رخصتوں کے بارے میں یہ معروف طریقہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سال میں ایک ماہ کی رخصت حسب معمول ملنی چاہیے اور ناگہانی رخصتیں سال میں پندرہ دن کی بامعاوضہ ملنی چاہئیں۔ اس سے زائد رخصتیں ایک متعین حد تک بلا معاوضہ دی جاسکتی ہیں۔
بیماری کے دنوں کا معاوضہ ہر ملازم کو پورا ملنا چاہیے، قطع نظر اس کے کہ بیماری کتنی طویل ہو۔ کسی مستاجر (Employer) کو اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر اسے بیمار ملازم کے مصارف علاج برداشت کرنے چاہیں یا اس کے علاج کا مفت انتظام کرنا چاہیے اور بیمار اور اس کے متعلقین کی ضروریات کا بقدر کفاف ذمہ دار ہونا چاہیے۔
ملازم کا معاوضہ مقرر کرنے میں چند امور کا لحاظ کرنا ہوگا۔ مثلاً اس کے کام کی نوعیت کیا ہے، اس کی اپنی صلاحیت کیا ہے، اس نوعیت کے کام اور اس قابلیت کے آدمی کے لیے معروف ضروریات زندگی کیا ہیں اور اس خاص ملازم کی خانگی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
عام مستاجر افراد و ادارات کے بس کا تو یہ کام نہیں ہے کہ ملازم کے کنبے کے افراد جس تناسب سے بڑھتے جائیں، اس کی تنخواہ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا جاتا رہے۔ البتہ حکومت کو اس کی ذمہ داری لینی چاہیے یا پھر بڑے بڑے کاروباری اور صنعتی اداروں کو بھی اس کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔
رخصت کے لیے اجازت کا معاملہ بھی ایک طرح سے لین دین کے معاملات سے مشابہ ہے۔ اس لیے اصول تو یہی چاہتا ہے کہ تحریری درخواست اور تحریری اجازت کی پابندی ہو۔ البتہ پرائیویٹ ملازمت میں جہاں ایک شخص کا معاملہ ایک شخص ہی سے ہوتا ہے، وہاں زبانی اجازت کے استثناء کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
معاوضوں میں تفاوت کے علاوہ دیگر جملہ حقوق میں اصولاً اعلیٰ و ادنیٰ ملازمین میں یکسانی ہونی چاہیے۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الثانی ۱۳۷۲ھ، جنوری ۱۹۵۳ء)