کمیشن اور نیلام
سوال: حسب ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے:
(۱) بعض ایجنٹ مال سپلائی کرتے وقت دکان دار سے کہتے ہیں کہ اگر مال فروخت کرکے ہمیں رقم دو گے تو ۲۰ فیصدی کمیشن ہم آپ کو دیں گے، اور اگر نقد قیمت مال کی ابھی دوگے تو ۲۵ فیصدی کمیشن ملے گا۔ کیا اس طرز پر کمیشن کا لین دین جائز ہے؟
(۲) مسلمان نیلام کنندہ کے لیے کیا یہ جائز ہے کہ جب کوئی شخص بولی نہ چڑھائے اور وہ دیکھے کہ اس میں مجھے نقصان ہوگا تو وہ خود بولی دے کر مال کو اپنے قبضے میں یہ کہہ کر رکھ لے کہ یہ مال پھر دوسرے وقت میں فروخت یا نیلام ہوگا؟ نیز کیا وہ یہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے آدمی مقرر کردے کہ وہ قیمت بڑھانے کے لیے بولی دیتے رہیں، یہاں تک کہ اس کے حسب منشا مال کی قیمت وصول ہوسکے؟
جواب: نقد خریداری کی صورت میں زیادہ اور ادھار کی صورت میں کم کمیشن دینا میرے علم میں ناجائز نہیں ہے۔ ایجنٹ (یا مالک) دوکان داروں کو مال فراہم کرتے وقت جو کمیشن دیتا ہے، وہ دراصل اپنے منافع میں سے ایک حصہ ان کو ادا کرتا ہے۔ اس حصے کو سودے کی نوعیت کے لحاظ سے کم و بیش ادا کرنے کا اسے حق ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی چیز سود سے مشابہ ہے۔ البتہ اگر ادھار کی مدت کے لحاظ سے کمیشن کی کمی کے درجے قائم کیے جائیں تو اس میں سود سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔
نیلام کرنے والے کے لیے یہ تو درست ہے کہ اگر کسی مال پر اتنی بولی نہیں آتی جس پر اپنا مال بیچنے کے لیے صاحب مال راضی ہو، تو وہ فروخت نہ کرے۔ لیکن اس کے لیے دھوکے اور فریب سے کام لینا مناسب نہیں ہے۔ اس کو کھلے بندوں یہ بات ظاہر کردینی چاہیے کہ دوسرے لوگوں کا جو مال وہ نیلام کے ذریعے سے فروخت کر رہا ہے، یا خود اپنا خرید کیا ہوا جو مال وہ اس طریقے سے نکال رہا ہے، اس پر اگر کم سے کم مطلوبہ قیمت کی حد تک بولی نہ آئی تو وہ اس چیز کوفروخت نہ کرے گا۔ خریداروں میں اپنے آدمی بٹھا کر ان سے بولی دلوانا یا خود خریدار بن کر بولی دینا فریب ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، ربیع الاخر ۱۳۷۰ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)