قومی ملکیت
سوال: چوں کہ جماعت اسلامی اور آپ ذاتی طور پر قومی ملکیت کے بارے میں ایک خاص طرز فکر رکھتے ہیں، اس لیے بعض شکوک پیش کر رہا ہوں۔ توقع ہے کہ آپ ان کا ازالہ فرمائیں گے۔
موجودہ دور میں ذہن اشتراکیت سے ضرور متاثر ہیں اور محرومین (Have Not) اور منعمین (Haves) کے درمیانی طبقاتی کش مکش کا موجود ہونا قومی ملکیت کے تصور کو ابھار رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ اور جماعت اسلامی اراضیات اور صنعت وغیرہ کو قومیانے (Nationalization)کے متعلق اسی حتمی نتیجے پر کس طرح پہنچے ہیں کہ اسلام اس کے خلاف ہے؟ آپ بحیثیت داعی یا محقق کے اپنی رائے کا اظہار تو کر سکتے ہیں مگر آخری اور قطعی فیصلہ کا حق نہیں رکھتے۔ یہ کام تو اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کا ہوگا کہ وہ کتاب و سنت پر بحث کرکے کسی آخری نتیجے پر پہنچے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی ملکیت کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ غالباً آپ کی رائے یہ ہے کہ اسلامی حکومت انفرادی حقوق ملکیت میں مداخلت کی مجاز نہیں ہے۔ حالاں کہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اسلامی لٹریچر اس متنازعہ مسئلے کو سرے سے چھوتا ہی نہیں۔ بلا شبہ یہ صحیح ہے کہ اسلام انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے، مگر اس سے یہ اخذ کرلینا کہ ارضیات و دیگر املاک (صنعتی و کاروباری) کو قومی نہیں قرار دیا جاسکتا، سراسر نا انصافی ہے۔ کسی حق کو تسلیم کرنا اور شے ہے اور کسی حق کے حصول کو لازمی قرار دینا اور چیز ہے… رسول اللہﷺ… کا جاگیریں اور پنشنیں دینا یہ ثابت نہیں کرتا کہ اسلامی حکومت پبلک کی ساری زمین کو اپنے چارج میں نہیں لے سکتی۔ کسی امر کا بطور واقعہ(Defacto) ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ قانونی طور پر (De-Jure) بھی وہ واجب ہے۔ غالباً آنحضرت ﷺ سے کوئی ایسا حکم ثابت نہیں کہ ہر شخص کو زمین یا کارخانے کا مالک ہونا چاہیے۔ پھر جو چیز لازم نہیں ہے، اس کا ترک کرنا ناجائز کیسے ہوا؟
خود قرآن مجید میں ہے کہ ’’جو کچھ زمین میں ہے وہ تم سب کا ہے‘‘۔ اور حکومت اسلامی انتخابی ہونے کے لحاظ سے بحکم خداوندی ہم سب کی ہے۔ اگر ایسی حکومت املاک کو ہم سب کے لیے اپنے تصرف میں کرلے تو امتناع یا تناقض کی بنا کہاں ملتی ہے؟ انفرادی ملکیت کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن مجید میں ایک خاص دور کے حالات کے تحت غلام رکھنے کی اجازت دی گئی تھی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور غلام رکھے جائیں۔
میرا مدعا یہ ہے کہ تسلیم حق، نفاذ حق کے مترادف نہیں۔ جو حق فرضیت تک نہیں پہنچتا اور اختیاری ہے، اسے جمیع مسلمان اگر چاہیں تو چھوڑ سکتے ہیں۔ میرے نزدیک مسئلہ یہ نہیں ہے کہ گزشتہ ادوار میں کونسا طریقہ نظام اراضی میں رائج تھا، بلکہ اصل بحث یہ ہے کہ ازروئے قرآن و سنت حکومت اسلامی کثرت رائے سے جمیع مسلمانان کی جمیع اراضیات اپنے تصرف میں لا کر بہتر طریق پر پیداوار حاصل کرکے لوگوں میں بانٹ سکتی ہے۔ باقی رہا انفرادی ملکیت کاحق تو وہ نہ کبھی پہلے دنیا یکسر ختم کرسکی، نہ آئندہ کرسکے گی۔
اگر افراد کو پورا پورا حق ملکیت دے دیا جائے تو پھر حکومت اپاہج ہوجائے گی۔ وہ غلے کا کنٹرول کرسکتی ہے، نہ لائسنس سسٹم رائج کرسکتی ہے نہ تجارت پر نگرانی قائم کرسکتی ہے۔
قومی ملکیت کے لیے اکثریت کی مرضی معلوم کرنے کا ذریعہ اگر مجلس شوریٰ کافی نہ ہو تو استصواب عام (Refrendum) بھی کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر پوری قوم کی مرضی یہ فیصلہ دے تو اسے خلاف اسلام کیسے کہا جاسکتا ہے۔
جواب: جو سوالات آپ نے چھیڑے ہیں، ان کا مفصل جواب تو ایک خط میں دینا مشکل ہے۔ لیکن امید ہے کہ یہ چند ارشادات آپ کے لیے کافی ہوں گے۔
آپ کا یہ خیال درست ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ آئندہ اسلامی حکومت یا پارلیمنٹ کو کرنا ہے، ان کے بارے میں ہم ایک اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی جماعت کی حیثیت سے کوئی پیشگی فیصلہ کردینے کا آئینی حق نہیں رکھتے اور اگر ہم ایسا کوئی فیصلہ کر بھی دیں تو اس کا کوئی آئینی وزن نہیں ہے۔ مگر کیا ایک جماعت کی حیثیت سے ہم یہ کہنے کا حق بھی نہیں رکھتے کہ فلاں تدبیر یا فلاں طریقہ کار ہمارے نزدیک غیر اسلامی ہے؟ اور کیا ہم یہ فیصلہ کرنے کے بھی مجاز نہیں ہیں کہ فلاں تجویز جب کبھی زیر بحث آئے گی تو ہم اس کی مخالفت کریں گے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ ہر شخص کا گروہ جس نے دینی مسائل میں رائے دینے کی استعداد بہم پہنچائی ہو، اس طرح کے فیصلے کرنے کا حق رکھتا ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کوئی بات اس سے زیادہ نہیں کی ہے۔ ہم خود جانتے ہیں کہ ایسے معاملات میں ہمارے فیصلے آئندہ اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کو پابند کرنے والے نہیں ہیں۔
اب آپ اصل مسئلہ کو لیجئے۔ قومی ملکیت کے بارے میں اصولی طور پر دو سوال تصفیہ طلب ہیں:
ایک یہ کہ آیا تمام ذرائع پیداوار کوقومی ملکیت بنادینا اسلام کے فلسفہ اجتماع (Social Philosophy) کی رو سے بھی اسی طرح مطلوب ہے جس طرح اشتراکیت کے فلسفہ اجتماع کی رو سے ہے؟ یا اگر مطلوب نہیں تو کیا کم از کم یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کرنا اسلامی فلسفہ اجتماع کی مجموعی اسپرٹ سے مطابقت رکھتا ہے؟
دوسرے یہ کہ قومی ملکیت کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر کیا یہ درست ہے کہ کوئی پارلیمنٹ ایک حکم کے ذریعے سے اراضی اور دوسرے ذرائع پیداوار پر سے افراد کی ملکیت کو ساقط کرکے ان پر اجتماعی ملکیت قائم کردے؟ یا یہ فیصلہ کردے کہ تمام افراد اپنی ایسی ملکیتیں حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں پر حکومت کے ہاتھ لازماً بیچ دیں۔
امر اول کے بارے میں آپ میری کتاب ’’ملکیت زمین‘‘ کا آخری باب ملاحظہ فرمائیں۔ نیز میری کتاب ’’سود’’ کے حصہ دوم کو بھی دیکھ لیں۔ نعیم صدیقی صاحب کا پمفلٹ ’’قومی ملکیت‘‘ بھی نگاہ میں رہے تو بہتر ہے۔ ان چیزوں کے ملاحظہ فرمانے کے بعد بھی اگر آپ کی رائے یہ ہو کہ ذرائع پیداوار کو بطور ایک مستقل پالیسی کے قومی ملکیت بنادینا اسلامی فلسفہ اجتماع کی رو سے مطلوب ہے یا اس سے مطابقت رکھتا ہے تو براہ کرم آپ اپنے دلائل ارشاد فرمائیں اور ساتھ ہی ہمارے دلائل پر تنقید کرکے ان کی غلطی بھی واضح کردیں۔
امر دوم کے بارے میں ایک قانون دان کی حیثیت سے کیا آپ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت تمام افراد کی نہیں بلکہ کسی ایک شخص ہی کی ذاتی ملکیت کو اس طرح ساقط کردینے یا اس کو اپنی املاک کی فروخت پر مجبور کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔خصوصاًجبکہ ا سقاط یا اجبار ایک ایسے فلسفہ اجتماع پر مبنی ہو جو بہرحال قرآن و حدیث سے ماخوذ نہیں ہے؟
(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۱۲۷۹ھ، اکتوبر ۱۹۵۰ء)