شکار کرنے اور شکار کھیلنے میں فرق
سوال: امیر لوگ آج کل جس طرح شکار کھیلتے ہیں، اسے دیکھ کر دل بے قرار ہوتا ہے۔ سابق زمانہ میں تو شاید لوگ قوت لایموت کے لیے شکار کو ذریعہ بناتے ہوں گے۔ مگر آج کل تو یہ ایک تفریح اور تماشا ہے۔ بعض لوگ جنگل یا کسی کھیت میں جال لگا کو خرگوش پکڑتے ہیں۔ پھر ان کو بوریوں میں ڈال کر کسی میدان میں لے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے کتے چھوڑتے ہیں۔ خرگوش کو کھلی جگہ میں کوئی جائے پناہ نہیں ملتی تو وہ دوڑ دوڑ کر ہار جاتا ہے اور کتے اسے پھاڑ ڈالتے ہیں۔ اس پر خوب تفریح کی جاتی ہے۔ یہ بھی دریافت طلب ہے کہ بندوق سے شکار کرنا کیسا ہے۔ اس معاملے میں میرے سامنے پارہ دوم کی یہ آیت ہے کہ
وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيِهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ
کتب فقہ میں یہ مسئلہ جو درج ہے کہ تکبیر پڑھ کر شکار پر کتا چھوڑا جائے یا بندوق چلائی جائے تو شکار، اگر زخمی ہو کر بغیر ذبح کیے مرجائے تو وہ بھی حلال ہے، اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: شکار کھیلنا میرے نزدیک مکروہ ہے، البتہ شکار کرنا جائز ہے۔ شکار کرنے اور کھیلنے میں فرق یہ ہے کہ جو شکار کھانے کے لیے کیا جائے خواہ بہ ضرورت ہو یا بلا ضرورت، وہ جائز ہے اور جو شکار محض تفریحاً کیا جائے اور جس میں خواہ مخواہ کی جانیں ہلاک ہوجائیں، وہ اگر ناجائز نہیں تو مکروہ ضرور ہے۔
کسی جانور پر اگر شکاری کتے یا دوسرے شکاری جانور کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا جائے اور وہ شکاری جانور کے حملے سے مرجائے تو اس کا کھانا ازروئے قرآن مجید جائز ہے اور اگر تیر اللہ کا نام لے کر چھوڑا جائے اور اس کی ضرب سے جانور مرجائے تو اس کا کھانا ازروئے حدیث جائز ہے۔ پہلی چیزکی دلیل سورہ مائدہ کے پہلے رکوع میں موجود ہے اور دوسری چیز کی دلیل کے لیے حدیث کی کسی کتاب میں ’’کتاب الصید‘‘ نکال کر دیکھ لیجیے۔ بندوق کے متعلق آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ کتب فقہ میں مذکور نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۰ء)