پوسٹ مارٹم اور دوسرے طبی مسائل
سوال: سابق خط کے جواب سے میری تشفی نہیں ہوئی۔ آپ نے لکھا ہے کہ ’’پوسٹ مارٹم کی ضرورت بھی مسلم ہے اور احکام شرعیہ میں شدید ضرورت کے بغیر اس کی گنجائش بھی نظر نہیں آتی‘‘۔مگر مشکل یہ ہے کہ طبی نقطہ نگاہ سے کم از کم اس مریض کی لاش کاپوسٹ مارٹم تو ضرور ہونا چاہئے جس کے مرض کی تشخیص نہ ہوسکی ہو یا اس کے باوجود علاج بیکار ثابت ہوا ہو۔ اسی طرح ’’طبی قانونی‘‘ (Medico-Legal) نقطہ نظر سے بھی نوعیت جرم کی تشخیص کے لیے پوسٹ مارٹم لازمی ہے۔ علاوہ ازیں اناٹومی، فزیالوجی اور آپریٹو سرجری کی تعلیم بھی جسد انسانی کے بغیر نا ممکن ہے۔ آپ واضح فرمائیں کہ ان صورتوں میں شرعاً شدید ضرورت کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں؟
آپ نے ایک جگہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’آج کل الکوہل کو ایک اچھا محلول ہونے کی حیثیت سے دوا سازی میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن جب فن دوا سازی کو مسلمان بنایا جائے گا تو الکوہل کے استعمال کو ترک کردیا جائے گا۔‘‘ لیکن کیمیاوی اصطلاح میں الکوہل کے لفظ کا اطلاق نشہ آور اجزا پر نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ علم کیمیا میں اشیاء کے ایک خاص گروپ کا نام ہے جس میں مسکرات کے علاوہ اور بہت سی چیزیں شامل ہیں، تو کیا پھر ان سب اشیاء کا استعمال ناجائز ہوگا؟ علاوہ ازیں الکوہل کا جسم پر خارجی استعمال بھی ہوتا ہے، کیوں کہ وہ صرف محلول ہی نہیں جراثیم کش بھی ہے۔ کیا یہ استعمال بھی ممنوع ہے؟
’’تفہیم القرآن‘‘ میں آپ نے ایک مقام پر یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمان اطباء دواسازی میں الکوہل کی بجائے شہد استعمال کرتے تھے۔ نیز آپ نے وہاں یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ شہد کی مکھی کو خاص جڑی بوٹیوں سے رس حاصل کرنے کی تربیت دے کر اس سے دوا سازی میں مدد لی جاسکتی ہے۔ ترقی فن کے موجودہ دور میں آپ کا شہد الکوہل کا بدل تجویز کرنا اور شہد کی مکھی کی تربیت کا مشورہ میری سمجھ میں نہیں آسکا۔
اب میں مختصراً چند سوالات عرض کرتا ہوں، جن کے جوابات کی ضرورت ہے۔
(۱) کسی مریض کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا بعض علما کے نزدیک ناجائز ہے۔ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟
(۲) بعض دواؤں کے اجزاء انسانی یا حیوانی پیشاب، خون یا گوشت سے حاصل کئے جاتے ہیں اور بعض دوائیں وہیل مچھلی کے غدود سے نکالی جاتی ہیں۔ ایسی دواؤں کا استعمال شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
(۳) ڈاکٹر کے لیے فیس کا تعین یا اس کا مطالبہ جائز ہے یا اسے مریض کی مرضی پر چھوڑدینا چاہئے؟
(۴) سائنس کے مختلف شعبوں کے مطالعہ کرنے کے سلسلے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے؟
(۵) غذاؤں اور دواؤں کی حلت و حرمت کے بارے میں شرعی احکام کیا ہیں؟
(۶) مسلم اطباء نے طب کو اسلام کا پابند بنانے کے سلسلے میں کیا خدمات سرانجام دی ہیں؟
جواب: (۱) پوسٹ مارٹم کے مسئلے میں، جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے خود بڑا خلجان ہے اور کوئی فیصلہ کن بات میرے لیے مشکل ہے۔ اس معاملے کے دو مختلف پہلو ہیں جن کے تقاضے ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں۔
ایک طرف شرعی احکام ہیں جو مرنے والے انسانوں کے جسم کا احترام کرنے اور ان کو عزت کے ساتھ دفن کردینے کی تاکید کرتے ہیں اور اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کی تجہیز و تکفین کرکے نماز جنازہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان شرعی احکام کی تائید ان لطیف انسانی حسیات سے بھی ہوتی ہے جو (شاید ڈاکٹروں اور بالکل سائنٹسٹ قسم کے لوگوں کے سوا) سب ہی انسانوں میں موجود ہوتے ہیں۔ کوئی آدمی خوشی سے یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کے باپ، بیٹے، بیوی، بہن اور ماں کی لاشیں ڈاکٹروں کے حوالے کی جائیں اور وہ ان کی چیڑ پھاڑ کریں۔ یا وہ میڈیکل کالج کے طالب علموں کو دے دی جائیں تاکہ وہ ان کے ایک ایک عضو کا تجزیہ کریں اور پھر ان کی ہڈیاں سکھا کر رکھ لیں۔اسی طرح کوئی قوم بھی یہ گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے لیڈر اور پیشوا مرنے کے بعد پوسٹ مارٹم کے تختہ مشق بنائے جائیں۔ ابھی حال ہی میں گاندھی جی اور لیاقت علی حان مرحوم گولی کے شکار ہوئے ہیں۔ ’’طبی قانونی‘‘ نقطہ نظر سے ضروری تھا کہ ان کا پوسٹ مارٹم کرکے سبب موت کی تشخیص کی جاتی۔ مگر اس سے احتراز کیوں کیا گیا؟ صرف اس لیے کہ قومی جذبات اپنے محترم لیڈروں کا چیر پھاڑ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
دوسری طرف طبی اور قانونی اغراض کے لیے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔ طب کے مختلف شعبوں کی تعلیم اور طبی تحقیقات کی ترقی کے لیے اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور ایک حد تک قانون بھی اس کا تقاضا کرتا ہے کہ قتل کے مقدمات میں سبب موت تعین کیا جائے۔
اب یہ ایک بڑا پیچیدہ سوال ہے کہ ان دونوں متصادم تقاضوں کے درمیان مصالحت کیسے کی جائے۔ اس کا یہ حل تو میرے نزدیک سخت مکروہ ہے کہ امیروں اور غریبوں، بڑے لوگوں اور چھوٹے لوگوں، خاندان والوں اور لاوارثوں کی لاشوں کے بارے میں ہمارے پاس دو مختلف معیار و اخلاق اور دو مختلف طرز عمل ہوں۔ اس لیے لامحالہ اس کا کوئی اور ہی حل سوچنا پڑے گا۔ مگر وہ حل کیا ہو، اس باب میں میری قوت فیصلہ بالکل عاجز ہے۔ یہ چیز کسی ایسی مجلس میں زیر بحث آنی چاہئے جس میں علما دین بھی شامل ہوں اور شعبہ طب اور شعبہ عدالت کے نمائندے بھی۔ ممکن ہے یہ لوگ سرجوڑ کر اس کا کوئی حل نکال لیں۔
(۲) الکوہل کے بارے میں مختصراً گزارش یہ ہے کہ اس سے مراد وہ الکوہل نہیں ہے جو مختلف قدرتی اشیا میں بطور ایک جزو کے موجود ہوتی ہے یا کسی خاص مرحلے پر ان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے بلکہ وہ الکوہل ہے جو اشیاء میں سے برآمد کرلی جاتی ہے اور ایک نشہ آور مادے کی حیثیت سے قابل استعمال ہوتی ہے۔ یہ چیز چوں کہ اصل مادہ نشہ آور (ام الالخبائث کی والدہ) ہے۔ اس لیے اس کا اندرونی استعمال جائز نہیں ہے، قطع نظر اس سے کہ جس تناسب سے وہ کسی دوا میں ملائی جائے، وہ بالفعل نشہ آور نہ ہو۔ البتہ اس کے بیرونی استعمال کو جائز رکھا جاسکتا ہے۔
کیا آپ اپنے فن کے نقطہ نظر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ کھانے اور پینے کی دواؤں میں کوئی دوسری چیز الکوہل کا بدل نہیں ہوسکتی؟ اور یہ کہ اس کا استعمال بہرحال ناگزیر ہے؟ میرے دوستوں میں متعدد ایسے ڈاکٹرہیں جنہوں نے الکوہل کے بارے میں میرے نقطہ نظر کی تائید کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کے دوسرے بدل موجود ہیں۔ بلکہ ان میں بعض نے تو اندرونی استعمال کی دواؤں میں اس سے کام لینا چھوڑ دیا ہے۔
(۳) شہد کے بارے میں، میں نے تفہیم القرآن میں جو کچھ لکھا تھا، اس سے مقصود شہد اور الکوہل کا مقابلہ کرنا نہ تھا۔ میرا مدعا یہ تھا کہ مسلمانوں کے ہاں فن طب کے رواج سے پہلے، جب یہ فن غیر مسلموں کے ہاتھ میں تھا، دواؤں کو محفوظ کرنے کے لیے حرام و حلال کی تمیز کئے بغیر ہر طرح کی چیزیں استعمال کی جاتی تھیں۔ مگر جب یہ فن مسلمانوں کے پاس آیا تو انہوں نے حلال چیزوں کی طرف توجہ کی اور دواؤں کو ان کی مفید صورت میں برقرار رکھنے کے لیے ان کے پاس ایک اہم ذریعہ شہد تھا جو خود بھی ایک مدت تک خراب نہیں ہوتا اور اپنے اندر دوسری چیزوں کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔ بعد میں یہ فن پھر ایسے لوگوں کے قبضے میں چلا گیا جو حرام و حلال کی تمیز سے واقف نہیں ہیں، تو پھر حرام چیزیں آزادی کے ساتھ استعمال ہونے لگیں جن میں ایک نمایاں چیزیہ الکوہل ہے۔
دوسری بات جس سے آپ اتفاق نہیں کرسکتے ہیں، دوا سازی کے فن کی تمام تر ترقیات کے باوجود اس لائق ہے کہ اہل فن اس کی طرف توجہ کریں۔ میرا خیال یہ نہیں ہے کہ سب تدابیر کو چھوڑ کر صرف ایک شہد کی مکھی پر انحصار کرلیا جائے، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ شہد کی مکھی بھی فن دوا سازی کی ایک اچھی خاصی خادم بن سکتی ہے۔
(۴) آدمی کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا میرے نزدیک جائز ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس کو حرام کہنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ غالباً اسے خون پینے اور خون کھانے پر قیاس کرکے کسی صاحب نے حرام کہا ہوگا۔ لیکن میرے نزدیک ان دونوں چیزوں میں فرق ہے۔ غذا کے طور پر خون پینا اور کھانا بلاشبہ حرام ہے مگر جان بچانے کے لیے مریض یا زخمی آدمی کے جسم میں خون داخل کرنا اسی طرح جائز ہے جس طرح حالت اضطرار میں مردار یا خنزیر کھانا۔
(۵) مختلف حیوانی دواؤں کے بارے میں جو سوالات آپ نے کئے ہیں، ان کا جواب یہ ہے کہ اصولاً ہر وہ چیز حرام ہے جو مردار یا حرام جانور سے حاصل کی جائے، یا حلال جانور کی کسی ناپاک یا حرام چیز سے حاصل کی جائے اور اصولاً ایک حرام چیز کا استعمال صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا ہے جبکہ انسانی جان بچانے کے لیے ناگزیر ہو۔ ان دو اصولوں کو مد نظر رکھ کر مسلمان اہل فن کو دواؤں کا جائزہ لینا چاہئے اور پھر خود رائے قائم کرنی چاہئے، کیوں کہ اپنے فن کو وہ آپ ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو اہل فن پائے جاتے ہیں، وہ نہ محقق، موجد اور مکتشف ہیں اور نہ دوا سازی کی صنعت ہی ان کے ہاتھ میں ہے۔ ان کی فن دانی اس سے آگے نہیں جاتی کہ دوسروں نے (اور یہ دوسرے وہ ہیں جو عملاً کسی کتاب الٰہی یا کسی شریعت نبوی کے پیرو نہیں ہیں) جو کچھ اپنی تحقیق و اکتشاف سے نکالا ہے، صرف اس سے واقف ہوجائیں۔ اور پھر وہی لوگ جو کچھ جس طرح بنا کر بھیج دیں، یہ اسے استعمال کرلیں۔ یہ بیچارے اس قابل بھی نہیں ہیں کہ انہوں نے اگر کسی مرض کی دوا حرام طریقے سے پیدا کی ہے تو یہ اپنی تحقیق سے اس کا کوئی دوسرا جائز بدل پیدا کرسکیں، یا محققانہ طریقے پر کم ازکم یہی کہہ سکیں کہ اس کا بدل نہیں مل سکتا اور اس کا استعمال فی الواقع ناگزیر ہے۔ اس حالت میں ہم غیر فنی لوگ محض حلال و حرام کی بحث کرکے آخر کیا مفید خدمت کرسکتے ہیں؟
وہیل مچھلی جائز ہے۔ اسی قسم کی ایک مچھلی صحابہ کرامؓ ایک جنگی سفر کے دوران میں کھا چکے ہیں اور نبیﷺ نے اسے جائز رکھا ہے۔
(۶) ڈاکٹر کی فیس اصولاً تو جائز ہے مگر ڈاکٹروں نے بالعموم فیس کے معاملے میں ایسے طریقے اختیار کرنے شروع کردیے ہیں جو گناہ اور ظلم اور سخت قساوت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی بنا پر ہماری رائے یہ کہ تمام ڈاکٹروں کو حکومت کی طرف سے کافی وظیفے ملنے چاہئیں اور انہیں مریضوں کا مفت علاج کرنا چاہئے۔
(۷) سائنس کے مختلف شعبوں کے مطالعے میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک مفصل مضمون چاہتا ہے مگر میں مختصراً آپ کو اس کے لیے چند اشارے دیتا ہوں۔
سائنس کا جو شعبہ بھی آپ لیں، وہ بہر حال کائنات کے کسی ایک جز کی ماہیت اور خصوصیات اور ان قوانین فطرت کو جو اس میں کار فرما ہیں، مشاہدے اور تجربے کی مدد سے معلوم کرنا چاہتا ہے۔ اس تحقیق و تجسس میں دو چیزیں نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ تحقیق کرنے والا انسان پہلے بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا (جس کے کسی جز پر وہ اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے) ایک صحیح و جامع تصور رکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ خود اپنی حقیقت اور حیثیت کو اور اپنی حدود کو ٹھیک ٹھیک سمجھتا ہو۔ ان دو چیزوں کے بغیر الگ الگ اجزا کی تحقیقات (جو بہر حال صرف تجربہ و مشاہدے میں آنے والے امور تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ کسی نہ کسی فلسفیانہ نظریے کی تشکیل بھی کرتی ہے) مشکل ہی سے کسی صحیح نظریے تک انسان کو پہنچاسکتی ہے۔ اس کا حاصل عملی، ایجادات سے قطع نظر، فلسفیانہ حیثیت سے اگر کچھ ہے تو یہ ہے کہ ایسی تحقیقات ہمارے مجموعی تصور کائنات و انسان کو مکمل اور واضح کرنے کی بجائے الٹا ناقص اور مسخ ہی کرتی چلی جائیں گی۔
اسلام دراصل ہماری اسی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ وہ ہر قسم کی تحقیقات کے لیے جو نقطہ آغاز ہم کو دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کو بے خدا فرض کرکے یا بہت سے خداؤں کی رزم گاہ سمجھ کر تحقیق کی ابتداء نہ کرو بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اسے دیکھنا شروع کرو کہ یہ ایک خالق کی تخلیق اور ایک قادر مطلق کی سلطنت اور ایک حکیم کی دانائی کا کرشمہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے آپ کو(اور فی الجملہ نوع انسانی کو) غیر محکوم و غیر مسؤل، یا مجبور محض یا مختار کل سمجھتے ہوئے مطالعہ کی ابتداء نہ کرو بلکہ اس حیثیت سے مطالعہ شروع کرو کہ تم سلطنت کائنات میں ایک ایسی رعیت ہو جس کی طرف کچھ اختیارمنتقل کیا گیا ہے اور اس اختیار کے صحیح و غلط استعمال میں تم مسؤل ہو۔ بس یہی ہر مطالعہ و تحقیق کے لیے ایک صحیح نقطہ آغاز ہے۔ رہے دوران تحقیق میں پیش آنے والے وہ بہت سے جزئیات جن سے انسان کو مختلف علمی شعبوں میں سابقہ پیش آتا ہے، تو ان میں اسلام اس کے سوا کسی بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ہمارے اخذ کردہ نتائج ان حقائق سے نہ ٹکرائیں جن کی صراحت اللہ تعالیٰ کی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ اگر بالفرض کسی جگہ بعض حقائق مشہودہ (Observed Facts) سے ہم کو ایسے نتائج نکلتے نظر آئیں جوتصریحات کتاب سے متصادم ہوتے ہیں، تو پھر ہمیں غور سے دیکھنا چاہئے کہ کہیں ہمارے مشاہدے، یا طریقہ استنتاج میں تو کوئی غلطی نہیں ہے۔ یہ خیال رہے کہ تصادم اگر ہوسکتا ہے تو حقائق و واقعات اور تصریحات کتاب میں نہیں بلکہ نتائج مستخرجہ اور تصریحات کتاب میں ہوسکتا ہے، اور اس صورت میں نظر ثانی کتاب پر نہیں بلکہ نتائج مستخرجہ پرہونی چاہئے، کیوں کہ نتائج مستخرجہ حقائق مشہودہ کی طرح کوئی یقینی چیز نہیں ہے۔
ان اصولی باتوں کو سمجھنے کے بعد اب اپنی تحقیق کا راستہ تلاش کرنا آپ کا اپنا کام ہے۔
(۸) دواؤں اور غذاؤں میں کیا چیزیں پاک ہیں اور کیا ناپاک، اس کو جاننے کے لیے آپ کو کچھ نہ کچھ حدیث اور فقہ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ جہاں تک احکام قرآنی کا تعلق ہے، اس سلسلے میں آپ کو تفہیم القرآن سے کافی مدد مل جائے گی۔ مگر پھر بھی حدیث اور فقہ کے مطالعے کی ضرورت باقی رہتی ہے تاکہ آپ اصولی احکام سے بھی واقف ہوجائیں اور جزئی مسائل سے بھی۔ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اب تک میڈیکل کالج کی تعلیم میں شرعی احکام کی تعلیم شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ آخرہم کیسے اس چیز کی ضرورت محسوس کرلیں جسے ہمارے استاد (انگریز) نے غیر ضروری سمجھا تھا۔
(۹) مسلم حکماء نے فن طب کو کس طرح مسلمان بنایا تھا، اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو تو کوئی صاحب علم طبیب ہی کرسکتا ہے۔ میں اس کے متعلق صرف ایک مجمل بات ہی کہہ سکتا ہوں کہ ابتدائی دور کے مسلم حکماء نے محض اندھے مقلدوں کی طرح اس فن کو غیر مسلم استادوں سے جوں کا توں نہیں لے لیا تھا بلکہ اسے مشرف بااسلام کیا تھا اور ان کا یہ کارنامہ محض نسخوں پر ’’ہوا الشافی‘‘ لکھ دینے تک محدود نہ تھا۔ انہوں نے فن طب میں کتابیں لکھی ہیں، جو خدا کی حمد اور رسول پر درود سلام سے کلام کی ابتدا کرتے ہیں اور بیچ میں جگہ جگہ خدا کی حکمت اور قدرت اور اس کی شان تخلیق اور آفاق النفس میں اس کی آیت کی طرف اشارہ کرتے جاتے ہیں۔ ان کی کتابوں کا حال موجودہ زمانے کی طبی کتابوں کا سا نہیں ہے جن میں کہیں اشارے کنائے میں بھی خدا کا ذکر نہیں آتا۔اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ پہلے ایک طالب علم کے ذہن میں تشریح بدن اور وظائف اعضاء اور اسباب امراض اور خواص ادویہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ خدا پر یقین اور اس کے خالق اور حکیم اور مدبر ہونے پر اعتقاد بڑھتا جاتا تھا، اور اب یہی ساری چیزیں پڑھنے کے دوران میں ایک خالص مادہ پرستانہ نقطہ نظر آپ سے آپ پرورش پاتا چلا جاتا ہے۔ الایہ ہے کہ کوئی طالب علم باہر کہیں سے ایمان باللہ ساتھ لایا ہو اور یہاں، اناٹومی اور فزیالوجی وغیرہ پڑھتے ہوئے وہ بطور خود آیات الٰہی کا مشاہدہ بھی کرتا رہے۔
قدیم زمانے میں ہمارے حکماء نے یہ طریقہ مقرر کرکھا تھا کہ فن طب کی تعلیم علوم دینی کی تکمیل کے بعد دی جاتی تھی۔ ایک طالب مدرسہ طب میں آتا ہی اس وقت تھا جب وہ ملک کی عمومی ثانوی تعلیم سے فارغ ہوچکا ہو، اور اس ثانوی تعلیم کا جزو لازم تعلیم دین ہوتا تھا۔ اس لیے ہمارے ہاں کے طبیب نرے طبیب ہی نہ ہوتے تھے بلکہ عالم دین بھی ہوتے تھے۔ اب معا ملہ اس کے برعکس ہے کہ میڈیکل کالج کے درجہ فراغ کو پہنچا ہوا ایک طالب علم حدود حلال و حرام کی ابتدائی معلومات نہیں رکھتا۔
مزید برآں ہمارے پرانے زمانے کے اطباء بالعموم زاہد و عابد لوگ ہوتے تھے، لالچ کے بغیر خدمت خلق کرتے تھے، فیس لینے سے اکثر اور دوا فروشی سے کلیتہً اجتناب کرتے تھے اور ذاتی زندگی بڑی پاکیزہ ہوتی تھی۔ اس لیے طبی تعلیم کا سارا ماحول پاک اور دین دارانہ رہتا تھا اور استادوں کے عمدہ اوصاف خود بخود شاگردوں میں سرایت کرجاتے تھے، بغیر اس کے کہ طلبہ کو دین دار اور با اخلاق بنانے کے لیے کوئی مصنوعی کوشش کرنی پڑتی، اس کے ساتھ دوا سازی کے فن کی جو اصلاح ان لوگوں نے کی، اس کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں۔ وہ لوگ حرام چیزوں کو صرف اسی صورت میں استعمال کرتے تھے جبکہ مریض کے لیے ان کا استعمال ناگزیر ہو۔ ورنہ بالعموم انہوں نے اپنی دواؤں کوحرام اور ناپاک اجزا سے پاک رکھا تھا۔