پوسٹ مارٹم، شق صدر اور لفظ ’’دل‘‘ کا قرآنی مفہوم
سوال: (۱)اسلامی حکومت میں نعشوں کی چیر پھاڑ (Post mortom) کی کیا صورت اختیار کی جائے گی؟ اسلام تو لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔ پوسٹ مارٹم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک (Medico-Legal) زیادہ تر تفتیش کے لیے، دوسرے علم الامراض کی (Pathological) ضروریات کے لیے۔ ممکن ہے اوٓل الذکر کی کچھ زیادہ اہمیت اسلامی حکومت میں نہ ہو، لیکن موخرالذکر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس طریقے سے امراض کی تشخیص اور طبی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔
(۲) سنا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سینہ مبارک چاک کیا گیا تھا اور اس کو تمام آلائشوں سے پاک کیا گیا تھا، تاکہ نبوت کے تقاضے کو پورا کرسکیں اور معصومیت کی صفت پیدا ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں آپ ﷺ کا دل زیادہ روشن ہوجائے۔ اچھے اور پاکیزہ خیالات دل میں آئیں اور گناہ کے خیالات نہ آنے پائیں۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟
(۳)اسی کے ساتھ ساتھ خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ سے یہ خیال آتا ہے کہ گویا دل خیالات کی ایک جلوہ گاہ (Agency) ہے۔شاید اس زمانے میں جالینوس کے نظریات کے تحت ’’دل‘‘ کو سرچشمہ افکار (Originator of Thought) سمجھا جاتا تھا، لیکن آج کل طبی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ دل دوران خون جاری رکھنے والا ایک عضو ہے اور ہر قسم کے خیالات اور حسیات اور ارادوں اور جذبات کا مرکز دماغ ہے۔ اس تحقیق کی وجہ سے ہر اس موقع پر الجھن پیدا ہوتی ہے جہاں ’’دل‘‘ سے کوئی ایسی چیز منسوب کی جاتی ہے جس کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔
جواب: (۱) پوسٹ مارٹم کے مسئلے پر میں اب تک کوئی قطعی رائے قائم نہیں کرسکا ہوں۔ یہ بھی مانتا ہوں کہ بعض ضرورتیں ایسی ہیں کہ جن کے لیے یہ ناگزیر ہے، مگر اس کے باوجود طبیعت میں سخت کراہت پاتا ہوں اور احکام شرعیہ میں بھی انتہائی ناگزیر صورت کے بغیر اس کے لیے کوئی گنجائش مجھے نظر نہیں آتی۔ بہرحال یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے ایک اسلامی حکومت میں اہل علم باہمی مشورے سے طے نہ کرسکتے ہوں۔
(۲) رسول اللہﷺ کے سینہ مبارک کے چاک کیے جانے کا معاملہ متشابہات کے قبیل سے ہے۔ اسے سمجھنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے اس پر کسی تحقیق کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔
(۳) ’’دل‘‘ کا لفظ ادب کی زبان میں کبھی اس معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے جس میں یہ لفظ علم تشریح(Anatomy) اور علم وظائف الاعضاء (Physiology) میں استعمال ہوتا ہے۔ ادب میں ’’دماغ‘‘ (Reason) کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے برعکس ’’دل‘‘ جذبات و حسیات اور خواہش اور ارادے کا مرکز ماناجاتا ہے۔ ہم رات دن بولتے ہیں کہ میرا دل نہیں مانتا۔ میرے دل میں یہ خیال آیا، میرا دل یہ چاہتا ہے۔ انگریزی میں(Qualities of Head and Heart) کا فقرہ بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ الفاظ بولتے وقت کوئی شخص بھی علم تشریح والا دل مراد نہیں لیتا۔ ممکن ہے کہ اس کا آغاز اسی نظریہ کے تحت ہوا ہو جو جالینوس کی طرف منسوب ہے۔ لیکن ادب میں جو الفاظ رائج ہوجاتے ہیں وہ بسا اوقات اپنے ابتدائی معنی کے تابع نہیں رہتے۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ء)