قطبین کے قریب مقامات میں نماز روزے کے اوقات
سوال: میرا ایک لڑکا ٹریننگ کے سلسلے میں انگلستان گیا ہوا ہے، آج کل وہ ایک ایسی جگہ قیام رکھتا ہے جو قطب شمالی سے بہت قریب ہے۔ وہ نمازوں اور روزوں کے اوقات کے لیے ایک اصولی ضابطہ چاہتا ہے۔ بارش، بادل اور دھند کی کثرت سے وہاں سورج بالعموم بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ کبھی دن بہت بڑے ہوتے ہیں، کبھی بہت چھوٹے۔بعض حالات میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب میں بیس گھنٹے کا فصل ہوگیا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں بیس گھنٹے یا اس سے زائد روزہ رکھنا ہوگا؟
جواب: جن ممالک میں چوبیس گھنٹے کے اندر طلوع و غروب ہوتا ہے، ان میں خواہ دن اور رات چھوٹے ہوں یا بڑے، نمازوں اور روزوں کے اوقات انہی قاعدوں پر مقرر کیے جائیں گے جو قرآن و حدیث میں بتائے گئے ہیں۔ یعنی فجر کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے، ظہر کی نماز زوال آفتاب کے بعد، عصر کی نماز غروب آفتاب سے قبل، مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد اور عشاء کی نماز کچھ رات گزر جانے پر۔ اسی طرح روزہ بہرحال صبح صادق کے ظہور پر شروع ہوگا اور غروب آفتاب کے معاً بعد افطار کیا جائے گا۔ جہاں ظہر و عصر، یا مغرب و عشاء میں فصل ممکن نہ ہو ، وہاں جمع بین الصلوٰتین کرلیں۔
آپ کے صاحب زادے اپنی سہولت کے لیے انگلستان کی رصد گاہ سے دریافت کرلیں کہ ان کے علاقے میں آفتاب کے طلوع و غروب اور زوال کے اوقات کیا ہیں۔ پھر ان اوقات کے لحاظ سے اپنی نمازوں کے اوقات مقرر کرلیں۔
روزے کے لیے وہاں کے دن کی بڑائی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ابن بطوطہ نے روس کے شہر بلغاریہ کے متعلق لکھا ہے کہ گرمی کے زمانے میں جب وہ وہاں پہنچا ہے تو رمضان کا مہینہ تھا اور افطار کے وقت سے لے کر صبح صادق کے ظہور تک صرف دو گھنٹے کا وقت ملتا تھا۔ اسی مختصرمدت میں وہاں کے مسلمان افطار بھی کرتے تھے، کھانا بھی کھاتے ، اور عشاء کی نماز بھی پڑھ لیتے تھے۔ نماز عشاء سے فارغ ہو کر کچھ دیر نہ گزرتی تھی کہ صبح صادق ظاہر ہوجاتی اور پھر فجر کی نماز پڑھ لی جاتی تھی۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ، جون، جولائی ۱۹۵۲ء)