جرابوں پر مسح
سوال: موزوں اور جرابوں پر مسح کے بارے میں علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں مقیم ہوں۔ یہاں جاڑے کے موسم میں سخت سردی پڑتی ہے اور اونی جراب کا ہر وقت پہننا ناگزیر ہے۔ کیا ایسی جراب پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے؟ براہ نوازش اپنی تحقیق احکام شریعت کی روشنی میں تحریر فرمائیں؟
جواب: جہاں تک چمڑے کے موزوں پر مسح کرنے کا تعلق ہے، اس کے جواز پر قریب قریب تمام اہل سنت کا اتفاق ہے مگر سوتی اور اونی جرابوں کے معاملہ میں عموماً ہمارے فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ موٹی ہوں اور شفاف نہ ہوں کہ ان کے نیچے سے پاؤں کی جلد نظر آئے، اور وہ کسی قسم کی بندش کے بغیر خود قائم رہ سکیں۔
میں نے اپنی امکانی حد تک یہ تلاش کرنے کی کوشش کی کہ ان شرائط کا ماخذ کیا ہے مگر سنت میں ایسی کوئی چیز نہ مل سکی۔ سنت سے جو کچھ ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا ہے۔ نسائی کے سوا کتب سنن میں اور مسند احمد میں مغیرہؓ بن شعبہ کی روایت موجود ہے کہ نبیﷺ نے وضو کیا اور مسح علی الجوربین والنعلین (اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا)۔
ابو داؤد کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، براء بن عازبؓ، انس بن مالکؓ، ابو امامہؓ، سہلؓ بن سعد اور عمروؓ بن حریث نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔ نیز حضرت عمرؓ اور ابن عباسؓ سے بھی یہ فعل مروی ہے بلکہ بیہقی نے ابن عباسؓ اور انس بن مالکؓ سے اور طحاوی نے اوس بن ابی اوس سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے صرف جوتوں پر مسح فرمایا ہے۔ اس میں جرابوں کا ذکر نہیں ہے اور یہی عمل حضرت علیؓ سے بھی منقول ہے۔ ان مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف جراب اور صرف جوتے اور جرابیں پہنے ہوئے جوتے پر مسح کرنا بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا۔ ان روایات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ نبیﷺ نے فقہا کی تجویز کردہ شرائط میں سے کوئی شرط بیان فرمائی ہو اور نہ ہی یہ ذکر کسی جگہ ملتا ہے کہ جن جرابوں پر حضورﷺ نے اور مذکورہ بالا صحابہ کرامؓ نے مسح کیا، کس قسم کی تھیں۔ اسی لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فقہا کی عائد کردہ ان شرائط کا کوئی ماخذ نہیں ہے اور فقہا چوں کہ شارع نہیں ہیں، اس لیے ان کی شرطوں پر اگر کوئی عمل نہ کرے تو وہ گناہگار نہیں ہوسکتا۔
امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ جرابوں پر اس صورت میں آدمی مسح کرسکتا ہے جبکہ آدمی جوتے اوپر سے پہنے رہے۔ لیکن اوپر جن صحابہ کے آثار نقل کئے گئے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی اس شرط کی پابندی نہیں کی ہے۔
مسح علی الخفین پر غور کرکے میں نے جو کچھ سمجھا، وہ یہ ہے کہ دراصل یہ تیمم کی طرح ایک سہولت ہے جو اہل ایمان کو ایسی حالتوں میں دی گئی ہے جبکہ وہ کسی صورت سے پاؤں ڈھکنے رکھنے پر مجبور ہوں اور بار بار پاؤں دھونا ان کے لیے موجب نقصان یا وجہ مشقت ہو۔ اس رعایت کی بنا اس مفروضے پر نہیں ہے کہ طہارت کے بعد موزے پہن لینے سے پاؤں نجاست سے محفوظ رہیں گے، اس لیے ان کو دھونے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ بلکہ اس کی بنا اللہ کی رحمت ہے جو بندوں کو سہولت عطا کرنے کی مقتضی ہوئی۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو سردی سے یا راستے کے گردو غبار سے بچنے کے لیے یا پاؤں کے کسی زخم کی حفاظت کے لیے آدمی پہنے اور جس کے بار بار اتارنے اور پھر پہننے میں آدمی کو زحمت ہو، اس پر مسح کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ اونی جراب ہو یا سوتی، چمڑے کا جوتا ہو یا کہ مچ کا، یا کوئی کپڑا ہی ہو، جو پاؤں پر لپیٹ کر باندھ لیا گیا ہو۔
میں جب کبھی کسی کو وضو کے بعد مسح کے لیے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھائے دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ بندہ اپنے خدا سے کہہ رہا ہے کہ ’’ حکم ہو تو ابھی یہ موزے کھینچ لوں اورپاؤں دھو ڈالوں مگر چوں کہ سرکار ہی نے رخصت فرمادی ہے، اسی لیے مسح پر اکتفا کرتا ہوں‘‘۔ میرے نزدیک دراصل یہی معنی مسح علی الخفین وغیرہ کی حقیقی روح ہیں اور اس روح کے اعتبار سے وہ تمام چیزیں یکساں ہیں جنہیں ان ضروریات کے لیے آدمی پہنے جن کی رعایت ملحوظ رکھ کر مسح کی اجازت دی گئی ہے۔
(ترجمان القرآن، رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ، جون جولائی ۱۹۵۲ء)