دارالکفر میں مسلمانوں کی مشکلات
سوال: برطانیہ کے قیام کے دوران میں احکام شریعت کی پابندی میں مجھے مندرجہ ذیل دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ براہ کرم صحیح رہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں۔
(۱) پہلی دقت طہارت اور نماز کے بارے میں ہے۔ مجھے سویرے نو بجے اپنے ہوٹل سے نکلنا پڑتا ہے۔ اب اگر شہر میں گھومتے ہوئے رفع حاجت کی ضرورت پڑے تو ہر جگہ انگریزی طرز کے بیت الخلاء بنے ہوئے ہیں، جہاں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کپڑوں پر چھینٹیں پڑنا لازمی ہے۔ اجابت کے لیے کاغذ میسر ہوتے ہیں، ایک بجے ظہر کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت پانی کسی عام جگہ دستیاب نہیں ہوسکتا اور بندرگاہ تک آنے جانے کے لیے زحمت کے علاوہ کم از کم ایک شلنگ خرچ ہوجاتا ہے۔ نماز کے لیے کوئی پاک جگہ بھی نہیں مل سکتی۔ ہوٹل میں گو پانی اور لوٹا میسر ہیں مگر پتلون کی وجہ سے استنجا نہیں ہوسکتا، البتہ وضو کیا جاسکتا ہے، مگر اس میں بھی یہ دقت ہے کہ پانی زمین پر نہ گرے۔ ہاتھ دھونے سے لے کر سر کے مسح تک تو خیر باسن (انگریزی بیسن) میں کام ہوجاتا ہے۔ لیکن پاؤں دھونے کے لیے باسن پر رکھنے پڑتے ہیں جو یہاں کی معاشرت کے لحاظ سے نہایت معیوب ہے۔
(۲) دوسری دشواری یہ ہے کہ یہاں کے لوگ عام طور پر کتے پالتے ہیں۔ ملاقات کے وقت پہلے کتے ہی استقبال کرتے ہیں اور کپڑوں کو منہ لگاتے ہیں۔ انتہائی کوشش کے باوجود اس مصیبت سے بچنا محال ہے۔ کیا ایسی صورت میں جرابوں اور کپڑوں کو بار بار دھلوایا جائے؟
(۳) تیسری دقت یہ ہے کہ دفاتر میں عموماً عورتیں ملازم ہیں، تعارف کے وقت وہ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہیں۔ اگر ہم ہاتھ نہ ملائیں تو وہ اسے اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ اسی طرح راستوں میں بھی اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ اگر پیدل چلتے وقت ہم نگاہ نیچے رکھیں تو دھکا لگ جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔
(۴) چوتھی بات سینما سے متعلق دریافت طلب ہے۔ یہاں بعض سینما ایسے ہیں جن میں صرف دنیا کی خبریں دکھائی جاتی ہیں یا دنیا کے بعض اہم واقعات پردہ فلم پر دکھاتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں کے، ایل، ایم کا جو جہاز گرا تھا، اس کے گرنے کی فلم دکھائی گئی تھی۔ اسی طرح بعض اوقات کارٹون دکھائے جاتے ہیں اور ان میں ایسی شکلیں دکھائی جاتی ہیں جن کا دنیا میں کہیں وجود نہیں ہے۔ اسی طرح کی معلوماتی فلم دیکھنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
جواب: آپ کے خط کو پڑھ کر ایک آدمی اندازہ کرسکتا ہے کہ دینی حس رکھنے والے مسلمان کو دارالکفرکے قیام میں کیسی زحمتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس سے آدمی کی سمجھ میں یہ بات بھی آسکتی ہے کہ ہمارے فقہا نے مسلمانوں کے لیے دارالکفر میں رہنے اور شادی بیاہ کرنے کو کیوں مکروہ کہا تھا اور کس لیے یہ شرط لگائی تھی کہ اگر کوئی شخص بضرورت وہاں جا کررہے تو کم از کم سال میں ایک مرتبہ ضرور واپس آئے۔ آپ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے، ان کا حل مختصراً پیش کیا جاتا ہے۔
(۱) جہاں بیٹھ کر پیشاب کرنا ممکن نہ ہو وہاں کھڑے ہو کر کرنے میں مضائقہ نہیں۔ اگر احتیاط برتی جائے تو کپڑے چھینٹوں سے بچائے جاسکتے ہیں۔ اگر باہر کہیں رفع حاجت کے لیے پانی استعمال کرنا ممکن نہ ہو تو کاغذ استعمال کرلیں اور بعد میں قیام گاہ پر آکر پانی سے استنجا کریں۔ وضو اگر باہر کرنا پڑے اور پاؤں دھونے ممکن نہ ہوں تو جرابوں پر یا جرابوں سمیت جوتے پر مسح کرلیں۔ نماز پڑھنے کے لیے اس امر کے علم کی ضرورت نہیں کہ جگہ پاک ہے، بلکہ ہر خشک جگہ کو پاک ہی سمجھنا چاہے جب تک کہ اس کے ناپاک ہونے کا علم نہ ہو۔ اس لیے محض شک اور وہم کی بنا پر نماز قضا کرنا درست نہیں۔ اگر طبیعت کا وہم دور نہ ہو تو اپنا اوور کوٹ اتار کر کہیں بچھا لیجیے اور اس پر پڑھ لیجیے۔
(۲) کتوں سے اس ملک میں بچنا سخت مشکل ہے۔ آپ اگر کوشش کے باوجود نہ بچ سکیں تو جس جگہ ان کا منہ لگ گیا ہو، وہاں وضو کرتے وقت رفع وسواس کے لیے بس پانی کے چھینٹے دے لیا کیجیے۔
(۳) عورتوں سے ملاقات کے وقت بہت شائستگی سے کہہ دیجیے کہ ہماری تہذیب میں عورتوں سے ہاتھ ملانا معیوب ہے، اس لیے آپ برا نہ مانیں، اگر میں ہاتھ نہ ملاؤں۔ غض بصر کے معنی نگاہ نیچے کرنے کے نہیں بلکہ نگاہ بچانے کے ہیں۔ آپ خواہ مخواہ گھور کر کسی خاتون کو نہ دیکھیں۔ ایک نگاہ پڑ جائے تو دوسری بار نگاہ نہ ڈالیں۔ نگاہ کو بچانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ صرف نظر کے زاویے کو تھوڑا سا بدل لینا کافی ہو جاتا ہے۔
(۴) جس سینما میں علمی یا واقعاتی فلمیں دکھائی گئی ہوں، اس کے دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمارے ملک میں تو سینما ہاؤس جانا بجائے خود ایک موضع تہمت ہے، اس لیے علمی اور واقعاتی فلم دیکھنے کے لیے بھی اس خرابات میں قدم نہیں رکھا جاسکتا۔ انگلستان میں آپ چاہیں تو اس طرح کی فلم دیکھ لیں۔
(ترجمان القرآن، رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ، جون، جولائی ۱۹۵۲ء)