رشوت اور اضطرار
سوال: (۱) حالت اضطرار کیا ہے؟ کیا اضطرار کے بھی حالات اور ماحول کے لحاظ سے مختلف درجات ہیں؟
(۲) موجودہ حالات اور موجودہ ماحول میں کیا مسلمانوں کے لیے کسی صورت میں بھی رشوت جائز ہوسکتی ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رشوت کی ایک جامع تعریف بھی بیان کردیجیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس قسم کے معاملات رشوت کی تعریف میں آتے ہیں؟
جواب: اضطرار یہ ہے کہ آدمی کو شریعت کی مقرر کی ہوئی حدود سے کسی حد پر قائم رہنے میں ناقابل برداشت نقصان یا تکلیف لاحق ہو۔ اس معاملے میں آدمی اور آدمی کی قوت برداشت کے درمیان بھی فرق ہے اور حالات اور ماحول کے لحاظ سے بھی بہت کچھ فرق ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کون شخص کس وقت کن حالات میں مضطر ہے، خود اس شخص کا کام ہے جو اس حالت میں مبتلا ہو۔ اسے خود ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے یہ رائے قائم کرنی چاہیے کہ آیا وہ واقعی اس درجہ مجبور ہوگیا ہے کہ خدا کی کوئی حد توڑدے؟
موجودہ حالات ہوں یا کسی اور قسم کے حالات، رشوت لینا تو بہر حال حرام ہے البتہ رشوت دینا صرف اس صورت میں بر بنائے اضطرار جائز ہوسکتا ہے جبکہ کسی شخص کو کسی ظالم سے اپنا جائز حق حاصل نہ ہو رہا ہو اور اس حق کو چھوڑ دینا اس کو ناقابل برداشت نقصان پہنچاتا ہو اور اوپر کوئی با اختیار حاکم بھی ایسا نہ ہو جس سے شکایت کرکے اپنا حق وصول کرنا ممکن ہو۔
رشوت کی تعریف یہ ہے کہ ’’جو شخص کسی خدمت کا معاوضہ پاتا ہو، وہ اسی خدمت کے سلسلے میں ان لوگوں میں سے کسی نوعیت کا فائدہ حاصل کرے جن کے لیے یا جن کے ساتھ اس خدمت سے تعلق رکھنے والے معاملات انجام دینے کے لیے وہ مامور ہو، قطع نظر اس کے کہ وہ لوگ بہ رضا و رغبت اسے وہ فائدہ پہنچائیں یا مجبوراً۔ جو عہدیدار یا سرکاری ملازمین تحفے تحائف کو اس تعریف سے خارج ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ ہر وہ تحفہ ناجائز ہے جو کسی شخص کو ہر گز نہ ملتا، اگر وہ اس منصب پر نہ ہوتا۔ البتہ جو تحفے آدمی کو خالص شخصی روابط کی بنا پر ملیں، خواہ وہ اس منصب پر ہویا نہ ہو، وہ بلاشبہ جائز ہیں۔
(ترجمان القرآن، رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ ، جولائی ۱۹۵۲ء)