کیا برقع ’’پردے‘‘ کی غایت پوری کرتا ہے؟
سوال: احقر ایک مدت سے ذہنی اور قلبی طور پر آپ کی تحریک اقامت دین سے وابستہ ہے۔ پردہ کے مسئلہ پر آپ کے افکار عالیہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ لیکن آخر میں آپ نے مروجہ برقع کو بھی(Demond) کیا ہے۔ اس کے متعلق دو ایک باتیں دل میں کھٹکتی ہیں۔ براہ مہربانی ان پر روشنی ڈال کر مشکور فرمائیں۔
پردے کی غایت صنفی میلان کی انتشار پسندی کو روکنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ میلان ہر دو اصناف میں پایا جاتا ہے (گو دونوں میں فرق کی نوعیت سے انکار نہیں) اسی وجہ سے پردے کی اصل روح … غض بصر … کا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ برقع کی ’’دیوار‘‘ کے پیچھے عورتوں کی بہت بڑی اکثریت ’’نگاہ کے زنا‘‘ کی مرتکب ہوتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ ان کا یہ اطمینان (Satisfaction) ہوتا ہے کہ ہم تو مردوں کو دیکھ رہے ہیں لیکن مرد ہمیں نہیں دیکھ رہے، اور نہ ہماری اس ’’نظارہ بازی‘‘ کا علم ہی کسی کو ہے۔ سو اس طرح خواتین میں جوہر حیا … صنف نازک کا اصل جوہر… بہت کم ہوجاتا ہے۔
علاوہ ازیں برقع اوڑھ کر ایک اوسط معاشی وسائل کے کنبہ کی عورتیں اپنے کام کاج بھی کماحقہ انجام نہیں دے سکتیں۔ سفر ہی کو لیجیے گاڑیوں اور بسوں وغیرہ میں چڑھنا اور اترنا برقع پوش عورت کے لیے خطرہ سے خالی نہیں ہوتا۔
پردہ … ’’مکمل پردہ‘‘… کی اہمیت و معقولیت سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مروجہ برقع کی بجائے اور کوئی موزوں تر طریقہ استعمال ہو۔ مثال کے طور پر آج سے چند سال پیشتر تک دیہات کی شریف عورتیں خود کو ایک چادر میں مستور کرتی تھیں۔ چادر میں وہ یہ جرأت نہ کرسکتی تھیں کہ مرد کو مسلسل دیکھیں اور ان کی آنکھوں میں شرم و حیا کا بہت اعلیٰ مظاہرہ ہوتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ برقع کی نسبت اس چادر میں بہت اچھی طرح ’’پردہ‘‘ ہوتا تھا۔
آپ کی مصروفیات کے علم کے باوجود آپ کو تکلیف دے رہا ہوں۔
جواب: آپ نے اپنے اس سوال میں کئی چیزوں کو خلط ملط کردیا ہے۔ بہتر ہو کہ ایک ایک چیز کو آپ الگ الگ لیں اور پھر اس پر غور کرکے رائے قائم کریں۔
پہلی بات غور طلب یہ ہے کہ کیا غض بصر کی تلقین اور اخلاقی تربیت کے بغیر یہ ممکن ہے کہ کوئی عورت کسی غیر مرد کو گھورنے سے روکی جاسکے؟ آپ برقع کی نقاب پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ صرف مرد کو عورت پر نگاہ ڈالنے سے روکتی ہے، عورت کو اس ناجائز نظر بازی سے نہیں روکتی۔ مگر یہ عیب تو صرف نقاب میں نہیں، چادر میں بھی ہے۔ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے کہ عورت چادر سے منہ ڈھانک کر جب باہر نکلے تو اسے راستے دیکھنے کے لیے کم از کم اتنی جگہ کھلی رکھنی چاہیے کہ اس کی آنکھ سامنے دیکھ سکے۔ پھر یہ عیب چلمن میں بھی ہے جو آپ دروازوں اور کھڑکیوں پر ڈالتے ہیں بلکہ یہ عیب ہر اس چیز میں ہے جس سے کوئی عورت باہر جھانک سکتی ہے۔ آپ خود بتائیں کہ ان منافذ کو آپ کیسے روک سکتے ہیں؟ اور کیا فی الواقع شریعت کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ ان سب منافذ کو روکا جائے؟ علاوہ ازیں اسی کتاب پردہ میں، میں نے وہ روایت نقل کی ہے جس میں لکھا ہے کہ نبی ﷺ نے خود حضرت عائشہؓ کو حبشیوں کے کھیل تماشہ دکھایا تھا۔ وہاں میں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مردوں کا عورتوں کو دیکھنا اور عورتوں کا مردوں کو دیکھنا نہ شرعاً بالکل یکساں ہے اور نہ نفسانیت کے اعتبار سے ان کی حیثیت برابر ہے۔
دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اگر برقع بجائے خود بھڑکیلا اور جاذب نظر نہ ہو، سادہ اور بے زینت ہو تو شرعاً اس پر کس اعتراض کی گنجائش ہے؟ کیا وہ شریعت کے کسی مطالبہ کو پورا نہیں کرتا؟ اگر کرتا ہے تو ہمارے پاس اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کے نزدیک کوئی دوسری چیز اس سے بہتر طریقہ پر شریعت کے منشا کو پوری کرتی ہو۔ ایسی کوئی چیز آپ کی نگاہ میں ہے تو آپ اسے تجویز کرسکتے ہیں۔ مگر برقع کو ناجائز کہنا کسی طرح درست نہیں۔
برقع اوڑھ کر چلنے پھرنے اور بسوں وغیرہ پر چڑھنے کے سلسلے میں آپ جو مشکلات بیان کرتے ہیں، وہ جواز عدم جواز کی بحث سے غیر متعلق ہیں۔ آپ کے نزدیک چادر میں اس سے کم مشکلات ہیں یا کسی قسم کی مشکلات نہیں ہیں تو خواتین کو اس کی طرف توجہ دلائیں۔ وہ تجربہ سے اسے مناسب تر پائیں گی تو کیوں نہ اختیار کریں گی۔
(ترجمان القرآن، شعبان ۱۳۷۰ھ، مطابق جون ۱۹۵۱ء)