دارالاسلام اور دارالکفر کے مسلمانوں میں وراثت و مناکحت کے تعلقات
سوال: الجہاد فی الاسلام کے دوران مطالعہ میں ایک آیت وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يُهَاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِهِم مِّن شَيْءٍ… الخ نظر سے گزری۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا کہ ’’اس آیت میں آزاد مسلمان اور غلام مسلمانوں کے تعلقات کو نہایت وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے پہلے مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِهِم مِّن شَيْءٍ سے یہ بتایا گیا ہے کہ ’’جو مسلمان دارالکفر میں رہنا قبول کریں یا رہنے پر مجبور ہوں، ان سے دارالاسلام کے مسلمانوں کے تمدنی تعلقات نہیں رہ سکتے، نہ وہ باہم رشتہ قائم کرسکتے ہیں اور نہ انہیں ایک دوسرے کا ورثہ و ترکہ مل سکتا ہے۔‘‘
اب عرض یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان ’’دارالکفر‘‘ اور ’’دارالاسلام‘‘ کی صورت میں دو ملک وجود میں آگئے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت بھی اظہر من الشمس ہے۔ ان کی ذہنیتیں بھی بڑی حد تک بدل چکی ہیں، غرضیکہ ان سب لوازمات سے لیس ہوچکے ہیں جو ایک غلام قوم کے لیے ازبس ضروری ہیں۔ بہتیرے رہنے پر مجبور ہیں اور بہت سے وہاں کی رہائش عمداً قبول کئے ہوئے ہیں۔ بعض ہجرت کرکے اپنے دین و ناموس کی حفاظت کی خاطر پاکستان چلے آئے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جن کے والدین ہندوستان ہی میں رہنا پسند کرتے ہیں اور مرتے دم تک اس کو چھوڑنے پر تیار نہیں مگر اولاد پاکستان چلی آئی ہے اور اب ہندوستان کی سکونت اختیار کرنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں۔ اندریں حالات حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:
(۱) ایسی حالت میں اولاد، والدین یا کسی اور رشتہ دار کے ورثہ و ترکہ سے محروم رہے گی؟ اگر وہ ان کے انتقال پر اپنے حق وراثت کا دعویٰ کریں تو کس حد تک یہ دعویٰ جائز یا ناجائز ہوگا؟
(۲) موجودہ حالات کے پیش نظر کوئی پاکستانی(مہاجر یا اصلی باشندہ) ہندوستانی مسلمان لڑکی سے شادی کرسکتا ہے یا نہیں؟ کرنے کی صورت میں تعلقات جائز سمجھے جائیں گے یا ناجائز؟
جواب: جہاں تک مجھے علم ہے قرآن مجید کا منشا یہی ہے کہ دارالاسلام اور دارالکفر کے مسلمانوں میں وراثت اور شادی بیاہ کے تعلقات نہ ہوں۔ رہا ان مہاجرین کا معاملہ جن کے ایسے رشتے دار دارالکفر میں رہ گئے ہیں، جن کے وہ وارث ہوسکتے ہیں تو ان کے بارے میں بھی میرا خیال یہی ہے کہ نہ وہ ہندوستان میں اپنی میراث پاسکتے ہیں اور نہ ان کے ہندوستانی رشتے دار پاکستان میں ان سے میراث پانے کا حق رکھتے ہیں۔ نکاح کے بارے میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہجرت سے نکاح آپ ہی آپ تو نہیں ٹوٹ سکتا لیکن اگر زوجین میں سے ایک دارالاسلام میں ہجرت کر آیا ہے اور دوسرا ہجرت پر تیار نہ ہو تو عدالت میں اس بنیاد پر درخواست دی جاسکتی ہے اور ایسے زوجین کا نکاح فسخ کیا جاسکتا ہے۔ آئندہ شادی بیاہ کا تعلق پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان نہ ہونا چاہیے۔
(ترجمان القرآن، شعبان ۱۳۷۰ھ، جون ۱۹۵۱ء)