مضاربت کی صورت میں زکوٰۃ
سوال: دو آدمی شرکت میں کاروبار شروع کرتے ہیں۔ شریک اول سرمایہ لگاتے ہیں اور محنت بھی کرتے ہیں۔ شریک ثانی صرف محنت کے شریک ہیں۔ منافع کی تقسیم اس طرح پر طے پاتی ہے کہ کل منافع کے تین حصے کئے جائیں گے، ایک حصہ سرمایہ کا اور ایک ایک حصہ ہر دو شرکاء کا ہوگا۔ اس کاروبار کی زکوٰۃ کے متعلق دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے جوابات سے مطلع فرمائیں:
(ا) اگر کاروبار کے مجموعی سرمایے سے یکجا زکوٰۃ نکالی جائے تو شریک ثانی کو یہ اعتراض ہے کہ کاروبار کا سرمایہ صرف صاحب سرمایہ کی ملکیت ہے اور اس پر اسے علیحدہ منافع بھی ملتا ہے، لہٰذا سرمایہ پر زکوٰۃ سرمایہ دار کو ہی دینی چاہیے۔ کیا شریک ثانی کا یہ اعتراض درست ہے؟
(ب) کاروبار میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کا نفع و نقصان سے نہیں بلکہ سرمائے سے تعلق ہے۔ کاروبار میں نقصان کی صورت میں بھی موجود سرمائے پر زکوٰۃ دی جائے گی۔ اگر نقصان کی صورت میں کاروبار سے زکوٰۃ نکالی جائے گی تو شریک ثانی کے حصہ کی زکوٰۃ کی ایک تہائی رقم اس کے اگلے سال کے منافع سے نکالی جائے گی، جبکہ اگلے سال بھی زکوٰۃ کی رقم کا ایک تہائی حصہ اسے دینا ہوگا۔ ایسی حالت میں شریک ثانی کے لیے یہ زکوٰۃ نہیں رہی بلکہ سرمایہ دار کے سرمایہ کی زکوٰۃ کا ایک حصہ ادا کرنے کا ٹیکس ہوجاتا ہے۔ کیا یہ صورت زکوٰۃ کے اصل مقصد کے منافی نہیں ہے؟
جواب: آپ کے دونوں سوالوں کے جوابات درج ذیل ہیں:
(ا) شریک ثانی کا اعتراض درست نہیں ہے۔ زکوٰۃ صرف اس سرمائے پر نہیں لگتی جس سے کاروبار شروع کیا گیا ہو، بلکہ کل کاروبار کی مالیت پر لگتی ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پورے کاروبار سے پہلے زکوٰۃ نکالی جائے۔ پھر منافع اسی نسبت سے فریقین کے درمیان تقسیم ہو، جوان کے درمیان طے ہوچکی ہو۔
(ب) اموال تجارت کی زکوٰۃ کا اصول یہ ہے کہ کوئی مال تجارت اگر اس قدر نصاب سے زائد ہو تو اس سے زکوٰۃ نکالی جانی چاہیے۔ اب جو شخص صرف کام کا شریک ہے، اس کی محنت نے بہرحال اس تجارت میں مالیت پیدا کرنے میں کچھ نہ کچھ حصہ لیا ہے۔ یہ مالیت صرف ابتدائی سرمائے ہی کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لیے اس زکوٰۃ کے دو حصے سرمایہ دار کو ادا کرنے چاہئیں اور ایک حصہ شریک محنت کو ادا کرنا چاہیے۔
(ترجمان القرآن، ربیع الثانی ۱۳۷۲ھ، جنوری ۱۹۵۳ء)