چند تفسیری اور فقہی مسائل
سوال: مندرجہ ذیل استفسارات کے جواب لکھنے کی تکلیف دے رہا ہوں۔
(۱) آیت يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدہ آیت ۵) کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا۔ اس وقت میرے سامنے تفسیرکشاف ہے۔ صاحب کشاف کی توجیہات سے مجھے اتفاق نہیں ہے، کیوں کہ قرآنی الفاظ ان توجیہات کی تصدیق نہیں کرتے۔ ان پر تبصرہ لکھ کر آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کے نزدیک اس آیت کا صحیح مطلب کیا ہے؟ لفظ يَعْرُجُ إِلَيْهِ کا لغوی مدلول پیش نظر رہنا چاہیے۔ نیز یہ لفظ الْأَمْرَ قرآن مجید کی اصطلاح میں کن کن معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔
(۲) مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن جلد دوم میں صفحہ۵۴۰ سے۵۴۴ تک وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ( 12 ) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ( 13 ) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (المومنون ۱۲ تا ۱۶) کی تشریح کرتے ہوئے علم الجنین کے جن مدارج ستہ کو قرآنی الفاظ کے ساتھ چسپاں کر لیا ہے، اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔ مولانا کے علم وفضل کی عظمت کے اعتراف کے باوجود مجھے اس بات کے اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓ و سلف صالحینؒ میں سے کسی نے بھی ان مدارج ستہ کو بیان نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے میں غلط فہمی کی بنا پر کہہ رہا ہوں، آپ اس مقام کا بغور مطالعہ کرکے اس ’’تحقیق جدید‘‘ کے بارے میں اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ نیز اگر آپ کو مولانا کی اس تشریح سے اختلاف ہو تو پھر فرمائیے کہ آپ کے نزدیک اس آیت کا کیا مطلب ہے اور قدیم تفسیر پر مولانا نے جو اعتراضات کئے ہیں، آپ کے پاس ان کا کیا جواب ہے؟
(۳)مفردات القرآن (امام راغب) اور اساس البلاغتہ (زمخشری) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ قرآن مجید سمجھنے کے لیے اگر کوئی لغت کی مفید و مستند کتاب معلوم ہو تو مطلع فرمائیے۔
(۴) اسلامی شریعت میں مردوں کے لیے سونے چاندی کا استعمال ممنوع ہے۔ کیا سونے چاندی کا پاندان اس ممانعت کی زد میں آسکتا ہے؟ اور گھڑی کے بعض حصوں میں سونے کے استعمال کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟
(۵) امریکن سوپ فیکٹری، رحیم یار خان کے انگریز منیجر نے صابون کے اجزائے ترکیبی پر بحث کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ یورپ سے آنے والے خوشبودار سوپ میں چربی کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ ہر قسم کے جانور کی چربی کو استعمال کیا جاتا ہے خواہ وہ خنزیر ہو یا گائے۔ اس انکشاف جدید کے بعد میں نے لکس، حمام وغیرہ کا استعمال ترک کردیا ہے۔ اس مسئلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا آپ انگریزی خوشبودار سوپ استعمال کرتے ہیں۔
جواب:(۱) آیت يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء إِلَى الْأَرْضِ متشابہات کے قبیل سے ہے۔ اس کا مجمل مفہوم تو سمجھ میں آسکتا ہے، مگر تفصیلی مفہوم متعین کرنا مشکل ہے، کیوں کہ ہمارے پاس اس کے لیے کوئی ذریعہ علم نہیں ہے۔ مجملاً جو کچھ سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ زمین کی تدبیر صرف زمین پر نہیں ہورہی ہے بلکہ وہ ہستی اس نظام کو چلا رہی ہے جو سارے جہان وجود کی ناظم و مدبر ہے۔ اس تدبیر کا سر رشتہ عالم بالا میں ہے جہاں زمین اور اس کے مختلف النوع معاملات سے متعلق ایک منصوبہ تیار ہوتا ہے۔ کارکنان قضا وقدر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر مامور ہوتے ہیں اور پھر وقتاً فوقتاً اس کے ہر مرحلے کی تکمیل پر اپنی رپورٹ اوپر بھیجتے یا پیش کرتے ہیں۔ اس منصوبے میں ایک ایک مرحلے کی اسکیم بسا اوقات ایک ایک ہزار سال اور پچاس پچاس ہزار سال ہوتی ہے۔ ہمارے لیے وہ ایک مدت دراز ہے مگر مدبر کائنات کے ہاں وہ گویا ایک دن کا کام ہے۔
یعرج الیہ کے لغوی مدلول کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا مطلب میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ اس سے مراد کارکنان قضاو قدر کا اپنے کام کی رپورٹ لے کر پیشی خداوندی میں جانا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ کام جو پہلے اسکیم کی حیثیت سے ان کے سپرد کیا گیا تھا، پایہ تکمیل کو پہنچنے پر روداد کی شکل میں اوپر (Forward) کیا جاتا ہے۔
الامر سے مراد ایسے مواقع پر ’’کائنات کا انتظام‘‘ ہوا کرتا ہے۔
(۲) آیت وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ کی جو تشریح مولانا ابوالکلام آزاد نے کی ہے، اس کا بیشتر حصہ صحیح ہے۔ ایسے معاملات میں قدیم مفسرین سے اختلاف کرنا قابل اعتراض نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ علم الاشیاء کے متعلق انسان کی واقفیت جتنی بڑھے گی، قرآن مجید کے اس طرح کے بیانات کا مطلب پہلے سے زیادہ صحیح طریقے سے سمجھ میں آتا چلا جائے گا۔ یہ کوئی احکام شرعیہ، یا اُمور اعتقادیہ نہیں ہیں جن میں سلف کا فہم زیادہ معتبر ہو۔ البتہ اس کا وہ حصہ لائق اعتماد نہیں ہے جس میں انہوں نے اس آیت کا رشتہ بھی ڈاروینی نظریہ ارتقاء سے جوڑ دیا ہے، وہ ڈارونیت کے دلائل سے اس قدر مرعوب ہیں کہ علم جنین کے جو حقائق دراصل اس نظریے کی تردید کر رہے ہیں، انہی کو وہ اس کے شواہد میں شمار کرتے ہیں۔
(۳) مفردات امام راغب اور اساس البلاغہ قرآن مجید کو سمجھنے میں ایک حد تک مدد تو ضرور دیتی ہیں لیکن بسا اوقات انسان ان سے غلط تاویلات کے رستے پر بھی پڑ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید کی تاویل میں خود اپنا ایک مسلک رکھتے ہیں اور لغت کی تحقیق میں اپنے مسلک کے نظریات بھی داخل کردیتے ہیں۔ اس لیے جن لوگوں کا مبلغ علم انہی کتابوں تک محدود ہے وہ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ایک لفظ کی لغوی تشریح وہی کچھ ہے جو راغب اور زمخشری نے بیان کردی ہے۔ میرے نزدیک اس کی بجائے لسان العرب، تاج العروس، نہایہ ابن اثیر، جمہرہ ابن درید اور ابن جریر لغوی تحقیقات زیادہ قابل اعتماد ہیں، کیوں کہ یہ لوگ لغت سے بحث کرتے ہیں، اپنے نظریات کو دخل نہیں دیتے۔
(۴) سونے چاندی کا صرف پہننا ہی ممنوع نہیں ہے بلکہ ان کے برتن استعمال کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس لیے ان کے پاندان کے جائز ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ رہی گھڑی، تو اس کے اندر کسی پرزے میں سونا لگایا گیا تو وہ جائز ہوسکتا ہے، مگر باہر بطور زینت جو سونا چاندی استعمال کیا گیا ہو وہ جائز نہیں ہے۔
(۵) یہ امر تحقیق طلب ہے کہ حرام چیزیں کیمیاوی ترکیبات میں شامل ہوجانے کے بعد بھی آیا اپنی اصل کو برقرار رکھتی ہیں یا نہیں؟ اور اگر یہ اصل باقی نہیں رہتی بلکہ کیمیاوی ترکیب اس کی ماہیت تبدیل کرکے ان کو اور ان کے ساتھ ملنے والی دوسر اشیاء کو بھی ایک نئی چیز بنادیتی ہے، تو کیا وہ نئی چیز بھی اس بنا پر حرام ہوگی کہ اسکے اجزائے ترکیبی میں ایک حرام شے شامل تھی؟ یہ ایک دقیق مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ پہلے مجرد ترکیب، اختلاط، آمیزش اور امتزاج کی نوعیت اورکیمیاوی ترکیب و تحویل کی نوعیت کا فرق اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔نیز یہ بات بھی سمجھ لی جائے کہ کیمیاوی ترکیب کی انفرادی ماہیتوں میں جو تغیرات واقع ہوتے ہیں، وہ ان تغیرات سے اشبہ ہیں جو نباتات اور حیوانات کے جرم میں اجزائے غذا کے داخل ہونے کے بعدواقع ہوا کرتے ہیں۔
مسئلے کے اس پہلو کو ذہن نشین کر لینے کے بعد پہلے ماہرین فن سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ آیا صابن میں مجرد ترکیب واقع ہوتی ہے یا کیمیاوی ترکیب؟ یعنی آیا اس کے اجزا کا اختلاف محض آمیزش کی نوعیت رکھتا ہے جس میں ایک ایک جزو اپنی اصل باقی رکھتا ہو، یا یہ سب مل کر ایک کیمیاوی عمل کی بدولت اپنی ابتدائی ماہیت کھودیتے ہیں اور ایک نئی چیز پیدا کردیتے ہیں؟
اس کے بعد علما کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ جو ترکیبات موخر الذکر نوعیت کی ہوں ان میں حرام اجزا کی شمولیت کا کیا حکم ہے۔
اس تحقیق کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے بہت شدید ہوگئی ہے کہ ہمارا ملک زیادہ تر خام اشیاء پیدا کرکے بیچ دیتا ہے اور ہم ان کے بدلے میں ایسے ملکوں سے اپنی ضرورت کی بے شمار مصنوعات خرید رہے ہیں جہاں کے لوگ حلال و حرام کی تمیز سے قطعاً نا آشنا ہیں۔ اب یہ بات وقتاً فوقتاً ہمارے علم میں آتی رہتی ہیں کہ فلاں چیز جو باہر سے درآمد ہوتی ہے، اس میں فلاں حرام شے استعمال کی جاتی ہے، اور اس طرح کی خبریں سن کر آئے دن ہماری زندگی تلخ ہوتی رہتی ہے کہ کہیں ہم گناہ میں تو مبتلا نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پہلے اصولی طور پر مختلف اقسام کے مرکبات کی شرعی حیثیت مشخص کی جائے اور پھر ہر ایک کا حکم واضح طور پر بتا دیا جائے۔
میں اس معاملہ میں خود مذبذب ہوں اور قطعی رائے پر نہیں پہنچ سکا ہوں البتہ اس پریشانی میں سب کے ساتھ شریک ہوں کہ وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی چیز کے متعلق یہ اطلاع کانوں میں پڑجاتی ہے کہ اس میں کوئی حرام چیز شامل ہے۔ اب آپ نے صابن کے متعلق خبر سنا کر ایک اور شک کا اضافہ کردیا۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان ۱۳۷۰ھ۔ اپریل، مئی ۱۹۵۰ء)