مچھلی کے بلا ذبح حلال ہونے کی دلیل
سوال: میری نظر سے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا ایک پرانا پرچہ گزرا تھا جس میں انگلستان کے ایک طالب علم نے گوشت وغیرہ کھانے کے متعلق اپنی مشکلات پیش کی تھیں جس کے جواب میں آنجناب نے فرمایا تھا کہ وہ یہودیوں کا ذبیحہ یا مچھلی کا گوشت کھایا کرے۔ مجھے یہاں موخرالذکر معاملہ یعنی مچھلی غیر ذبح شدہ پر آپ سے کچھ عرض کرنا ہے۔ کیوں کہ غالباً آپ بھی جمہور مسلمانان کی طرح اس کا گوشت کھانا حلال خیال فرماتے ہیں۔
میرے خیال میں حلال و حرام کا فیصلہ بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی انسان کا حق نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ:
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلاَلٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ(النحل: ۱۱۶)
لیکن قرآن مجید کی رو سے مچھلی غیر ذبح شدہ کی حرمت تو موجود ہے کیوں کہ یہ بھی ایک حیوان ہے اور تمام حیوانات کو (بغیر سور، کتا، بلی وغیرہ مستثنیات) ذبح کرنے کا حکم صریحاً موجود ہے مثلاً۔
۱۔ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ (المائد ۳) مچھلی بھی الْمَيْتَةُ میں شامل ہے۔
۲۔ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّهُ فَكُلُواْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُواْ اسْمَ اللّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (المائدہ ۴)
یہاں تمام طیبات کو ذبح کرنے اور ان پر خدا کا نام لینے کی تصریح ہے۔ مچھلی کی استثنا نہیں ہے۔
۳۔ فَکُلُوْا مِمَّا ذَکَرَاسْمَ اللہِ عَلَیْہِ، انْ کُنْتُمْ بِاٰ یتِٰہ مَوْمِنِیْنَ۔ (۱۶، ۱۱۹) یہ اثباتی پہلو ہے اسی امر کا کہ صرف خدا کے نام کا ذبح شدہ جانور کھایا کرو، یہاں بھی مچھلی بغیر ذبح شدہ کی استثنا نہیں ہے بلکہ اسے خدا کا نام لے کر باقی حیوانات کی طرح ذبح کرنا چاہیے۔
۴۔ وَمَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِـرَ اسْمُ اللّـٰهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُـمْ اِلَيْهِ ۗ وَاِنَّ كَثِيْـرًا لَّيُضِلُّوْنَ بِاَهْوَآئِـهِـمْ بِغَيْـرِ عِلْمٍ ۗ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِيْنَ (الانعام ۱۱۹) یہ نہی کا پہلو ہے۔ یہاں تصریف آیات کے بہترین نمونے ہیں تاکہ اگر ایک طرح سے کوئی نہ سمجھ سکے تو دوسری طرح سمجھ جائے۔ اثباتی اور نہی ہر دو پہلو قرآن مجید کے عام اسلوب کے مطابق اس معاملہ میں بھی موجود ہیں۔ اور یہاں تو غیر ذبح شدہ حیوان کو کھانا فسق قرار دیا گیا ہے۔ یہاں پر بھی ’’الا السمک والجراد‘‘ کے الفاظ بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا غیر ذبح شدہ مچھلی کا گوشت کھانا قطعاً حرام ہے۔
اب عرض ہے کہ مچھلی غیر ذبح شدہ کی حلت اگر کہیں قرآن کریم میں ذکر کی گئی ہے تو مہربانی فرماکر مجھے بذریعہ ’’ترجمان القرآن‘‘ مطلع فرمائیں، عام علماء اسلام تو ’’ماوجد نا علیہ اٰباءَ نا‘‘ کی دلیل پیش کرکے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ قرآن مجید کے بین احکام کی موجودگی میں اس قسم کی دلیل ہر گز کام نہیں دے سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ احادیث رسولﷺ میں مچھلی غیر ذبح شدہ کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ لیکن قرآن مجید کے مقابلہ میں قرآن مجید کی دلیل پیش ہونی چاہیے۔ ہم ان احادیث کو بسروچشم مان لیتے ہیں جو قرآن مجید کے موافق ہوں، لیکن اگر کوئی حدیث قرآن مجید کے صریح فرمان کے خلاف ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث رسول کریمﷺ نے ہر گز نہیں فرمائی، بلکہ موضوع ہے اور احادیث کو قرآن مجید پر قاضی سمجھنا تو خارج از بحث ہے۔
لہٰذا چوں کہ بندہ آنجناب کے سامنے قرآن مجید کے دلائل پیش کرتا ہے۔ اس لیے استدعا ہے کہ آپ بھی قرآن مجید ہی سے دلائل پیش کریں۔ چار دلائل کے مقابلے میں ایک دلیل بھی کافی سمجھی جائے گی۔
جواب: یہ تو خوشی کی بات ہے کہ آپ قرآن مجید میں تدبر فرماتے ہیں۔ مگرآپ کے سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ تدبر کی غلط راہ پر پڑگئے ہیں۔ قرآن مجید پر تدبر کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ نبیﷺ کی تشریح وتبیین اور آپﷺ کے شاگرد صحابہؓ کی توضیحات اور ابتدا سے آج تک کے تمام علماء فقہا اور محدثین ومفسرین کی تحقیقات، اور امت کے متواتر تعامل، ہر چیز سے بے نیاز ہو کر بس مصحف کے الفاظ میں تدبر فرمائیں اور جو کچھ اس سے آپ کی سمجھ میں آئے، اس کے متعلق یہ سمجھ بیٹھیں کہ بس یہی حق ہے اور اس کے خلاف جو کچھ بھی کہیں پایا جاتا ہے، وہ رد کردینے کے لائق ہے۔ خواہ وہ احادیث و آثار میں ہو فقہائے امت کی تحقیقات میں، یا اس پر اس امت کا متواتر عمل پایا جاتا ہو۔ معاف فرمائیے، یہ طریقہ اگر آپ اختیار فرمائیں گے تو قرآن مجید سے ہدایت پانے کی بجائے گمراہی اخذ فرمائیں گے۔
يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ
آپ برا نہ مانیں۔ آپ تدبر کا یہ طریقہ اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا تعلق اس کے نبیﷺ کی بتیین سے کاٹتے ہیں، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کو جوڑا ہے۔
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ
اس لیے آپ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں کہ کتاب اللہ سے آپ کو ہدایت کی بجائے ضلالت ملے۔
کتاب اللہ کو سمجھنے کے لیے احادیث و آثار اور سلف کی تحقیقات کی طرف رجوع کرنا ہر گز وہ فعل نہیں ہے جس پر ماوجد نا علیہ آباء نا کی پھبتی کسی جاسکتی ہو۔ یہ قرآن مجید کی آیات کو قرآن مجید کی منشا کے خلاف استعمال کرنے کی ایک بد ترین مثال ہے۔ قرآن مجید نے یہ بات جہاں بھی فرمائی ہے، ان لوگوں کی مذمت میں فرمائی ہے جو اپنے غیر ہدایت یافتہ آباؤ اجداد کے طریقہ کی اندھی پیروی کر رہے تھے۔ اس کو ان لوگوں پر چسپاں کرنا جو کتاب الہٰی کا علم رکھنے والے لوگوں کی طرف کتاب الہٰی کا منشا معلوم کرنے کے لیے رجوع کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ منطقی طور پر غلط ہے بلکہ خود قرآن مجید کی تصریحات کے بھی خلاف ہے۔ اگر اس فعل کو آپ ماوجدنا علیہ آباء نا کے تحت لا کر قابل مذمت ٹھہراتے ہیں تو پھر قرآن مجید کے ان ارشادات کا آپ کے نزدیک کیا منشا ہے کہ
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ(لنحل 43) اور أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ (الانعام 90)
آپ کی یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ وہ ہر چیز جو قران مجید سے زائد یا اس کے بیان سے مختلف حدیث میں نظر آئے، وہ لازماً قرآن مجید کے خلاف ہے۔ اس لیے اسے رد کردینا چاہیے۔ قرآن مجید میں اگر کوئی حکم عموم کے انداز میں بیان ہوا ہو، اور حدیث یہ بتائے کہ اس حکم عام کا اطلاق کن خاص صورتوں پر ہوتا ہے، تو یہ قرآن مجید کے حکم کی نفی نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح ہے۔ اس تشریح کو اگر آپ قرآن مجید کے خلاف ٹھہرا کر رد کردیں گے اور ہر حکم عام کو اس کے عموم پر ہی پر رکھنے پر اصرار کریں گے تو اس سے بے شمار قباحتیں پیدا ہوں گی جن کی مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں تو آپ خود مان جائیں گے کہ فی الواقع یہ اصرار غلط ہے۔
آپ اصرار کے ساتھ مطالبہ فرماتے ہیں کہ ذبح کے بغیر مچھلی کے حلال ہونے کی کوئی دلیل قرآن مجید سے پیش کرو۔ میں اس کا جواب عرض کرتا ہوں مگر ابتدا ہی میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ جواب آپ کے اس مطالبہ کو اصولاً صحیح مان کر عرض نہیں کیا جارہا ہے بلکہ آپ کو یہ بتانے کے لیے عرض کیا جا رہا ہے کہ آپ کا مطالعہ قرآن مجید کس قدر سطحی ہے اور اس سطحی مطالعہ پر اعتماد کرکے آپ کا حدیث، تفسیر، فقہ اور امت کے متواتر عمل، ہر چیز کو رد کردینے پر آمادہ ہوجانا کتنی بڑی جسارت ہے۔خدا کرے کہ میری اس تنبیہ کے بعد ہی آپ منکرین حدیث کے اٹھائے ہوئے فتنہ سے بچ جائیں اور تدبر فی القرآن کی صحیح روش اختیار کر لیں۔
پہلی بات تو اصول تفسیر سے متعلق ہے جسے آپ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید قانون کی زبان میں کلام نہیں کرتا، بلکہ اس کا اسلوب بیان خطیبانہ ہوتا ہے اور خطیبانہ اسلوب بیان میں نہ ان چیزوں کی تصریح کی جاتی ہے جن کو مخاطب لوگ موقع و محل سے خود سمجھ رہے ہیں اور نہ ان رعایتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے جو قانون کی دفعات مرتب کرتے وقت نظر میں رکھی جاتی ہیں۔ کیوں کہ عام سامعین سے اس طرزِ کلام میں خطاب کرتے وقت یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ الفاظ کو ان کی معروف حدود سے گھٹا یا بڑھا کر ان کے قانونی حدود پر منطق کر بیٹھیں گے۔ اس قاعدے کو سمجھنے کے لیے اگر آپ ان آیات پر غور کریں گے جن سے آپ نے ’’ہر جانور کو ذبح کرنے‘‘ اور ’’بلا ذبح کسی جانور کے حلال نہ ہونے‘‘ کا قانونی کلیہ مستنبط کیا ہے تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ وہاں موقع و محل اور سیاق وسباق اور عرف عام سے یہ بات آپ ہی واضح تھی کہ کلام دراصل انعام اور خشکی کے دوسرے جانوروں سے متعلق ہے نہ کہ پانی کے جانوروں سے متعلق۔ نیز یہ بات چوں کہ عقل عام سے تعلق رکھتی ہے کہ ’’ذبح کے بغیر کسی جانور کو نہ کھانے‘‘ کا حکم عام سن کر کوئی معقول آدمی اسے مچھلیوں تک وسیع نہ سمجھے گا۔ اس لیے ایک غیر قانونی طرز کلام میں اس امر کی ضرورت نہ تھی کہ مچھلی کو اس سے مستثنٰی کیا جاتا۔
اس کےبعد اب دیکھیے کہ قرآن مجید میں خصوصیت کے ساتھ پانی کے جانوروں کے متعلق کیا حکم ملتا ہے۔ سورۃ مائدہ میں ارشاد ہوا ہے:
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ
’’ تمہارے لیے حلال کیا گیا سمندر کا شکار اور اس کا طعام۔‘‘
یہاں دو چیزیں لائق غور ہیں:
اول یہ کہ ’’سمندر کا شکار حلال کیا گیا ‘‘ شکار سے مراد یہاں فعل شکار نہیں بلکہ شکار کیا ہوا جانور ہی ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ محض فعل شکار کی تحلیل بے معنی ہے۔ اگر اس کا کھانا حلال نہ ہو اور جب اس شکار کے لیے کوئی خاص شرط تحلیل بیان نہیں کی گئی تو یہی بات سمجھی جائے گی کہ عام طور پر دنیا میں پانی کا شکار جس طرح استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح اس کے استعمال کو حلال کیا گیا ہے۔ اب آپ تلاش کرکے بتائے کہ دنیا میں کب کہاں مچھلیاں ذبح کی جاتی رہی ہیں کہ آپ صید البحر کے مفہوم میں عرف عام کے لحاظ سے شکار کی ہوئی مچھلیوں کے ذبح کو بھی شامل قرار دے سکیں؟ یہ ظاہر ہے کہ جس چیز کو ذبح کیے بغیر کھانا دنیا بھر میں معروف ہو، اس کے معاملے میں ذبح کے مشروط ہونے کی تو تصریح ضروری ہوگی مگر اس کے مشروط نہ ہونے کی تصریح کی ضرورت نہیں ہے۔
دوم یہ کہ یہاں صید کے ساتھ اور ایک چیز کا بھی ذکر ہے اور وہ ہے طعام البحر۔ سوال یہ ہے کہ یہ طعام البحر کیا ہے؟ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ طعامہ کی ضمیر بحر کی طرف نہیں بلکہ صید کی طرف پھرتی ہے اور اس کا مطلب ہے سمندری شکار کو کھانا، کیوں کہ اگر یہ مطلب ہوتا تو طعامہ کی بجائے طمعہ کہا جاتا۔ اس لیے لامحالہ یہ ضمیر سمندر ہی کی طرف پھرتی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صید البحر کے علاوہ طعام البحر بھی حلال ہے۔ اس طعام البحر کی کوئی تفسیر آپ کرسکتے ہوں تو ضرور کریں۔ مگر میں آپ کو یہ بتائے دیتا ہوں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابن عباسؓ جیسے لوگوں نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہے جسے شکار نہ کیا گیا ہو بلکہ جس کو سمندر نے ساحل پر لاڈالا ہو۔ اور یہی بات خود نبیﷺ سے بھی حضرت جابرؓ نے نقل کی ہے کہ ماالقاہ البحر اوجزر عنہ فکلوہ (ابو داؤد)۔ جسے سمندر نے پھینک دیا ہو یا جسے ساحل پر چھوڑ کر سمندر کا پانی ہٹ گیا ہو، اسے کھالو۔‘‘ نیز اسی کی تفسیر یہ حدیث بھی ہے کہ ’’سمندری جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کے لیے ذبح کر رکھا ہے۔‘‘(دار قطنی) اور یہ کہ ’’سمندر کا مرا ہوا حلال ہے‘‘ (موطا وغیرہ)۔ آپ چاہیں تو ان ساری تفسیروں کو رد فرمادیں، مگر براہ کرم یہ بھی ضرور بتائیں کہ آپ خود ’’صید البحر‘‘ کے ساتھ ’’وطعامہ‘‘ کے حلال کیے جانے کا مطلب کیا سمجھتے ہیں!
مچھلی کے بارے میں ابن قیم نے زادالمعاد(جلد دوم، فصل فی سریۃ الخبط) میں ایک لطیف بحث کی ہے، براہ کرم اس کو بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ اس میں انہوں نے نقلی دلائل کے سوا عقلی دلائل سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مچھلی کو ذبح کرنے کی درحقیقت کوئی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ محض پانی سے نکل آناہی اس کے تزکیہ کے لیے کافی ہے۔
(ترجمان القرآن، محرم ۱۳۷۱ھ، اکتوبر ۱۹۵۱ء)