ختم نبوت
سوال: میرے ایک دوست ہیں جو مجھ سے بحث کیا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے ایک رشتہ دار جو مرزائی ہیں ان کو اپنی جماعت کی دعوت دیتے ہیں مگر وہ میرے دوست ان کے سوال کا جواب پوری طرح نہیں دے سکتے۔انہوں نے مجھ سے ذکر کیا۔ میں خود تو جواب نہ دے سکا۔ البتہ میں نے ایک صاحب علم سے اس کا جواب پوچھا۔ مگر کوئی ایسا جواب نہ ملا جس سے کہ میری اپنی ہی تسلی ہوجاتی۔ اس لیے اب آپ سے پوچھتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مرزائی حضرات لفظ ’’خاتم‘‘ کے معنی نفی کمال کے لیتے ہیں نفی جنس کے نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خاتم کا لفظ کہیں بھی نفی جنس کے ساتھ استعمال نہیں ہوا اگر ہوا ہو تو مثال کے طور پر بتایا جائے۔ ان کا چیلنج ہے کہ جو شخص عربی لغت میں خاتم کے معنی نفی جنس کے دکھادے اس کو انعام ملے گا۔ نفی کمال کی دو مثالیں وہ یہ دیتے ہیں کہ مثلاً کسی کو خاتم الاولیاء کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولایت اس پر ختم ہوگئی، بلکہ حقیقی مطلب یہ ہوتا ہے کہ ولایت کا کمال اس پر ختم ہوا۔ اقبال کے اس فقرے کو بھی وہ نظیر میں پیش کرتے ہیں:
آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاں آباد میں اس کے بعد کوئی شاعر پیدا نہیں ہوا، بلکہ یہ ہے کہ وہ جہاں آباد کا آخری باکمال شاعر تھا۔اسی قاعدے پر وہ خاتم النبیین کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ نبی کریمﷺ پر کمالات نبوت ختم ہوگئے نہ یہ کہ خود نبوت ہی ختم ہوگئی۔
جواب: آپ کا عندیہ نامہ مورخہ۳ مارچ ۵۰ء مجھے یہاں یکم اپریل کو ملا۔ جواب میں مزید تاخیر اس لیے ہوئی کہ میرے پاس خط لکھنے کا کاغذ نہ تھا امید ہے کہ میری مجبوری کو پیش نظر رکھ کر تاخیر جواب سے درگزر فرمائیں گے۔
قرآن مجید کی کسی آیت کے متعلق اگر کوئی سوال پیدا ہو تو سب سے پہلے خود قرآن ہی سے اس کا مفہوم معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے بعد تحقیق کرنا چاہئے کہ کوئی حدیث صحیح بھی اس کی توضیح کرتی ہے یا نہیں۔ اگر ان دونوں ذرائع سے کوئی جواب نہ ملے (جس کا امکان بہت ہی کم ہے) تو البتہ کسی دوسرے ذریعہ کی طرف رجوع کرنا درست ہو سکتا ہے۔
ختم نبوت کا ذکر سورۃ احزاب میں آیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ عرب میں منہ بولے بیٹے کو بالکل بیٹے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ وہ حقیقی بیٹے کی طرح میراث پاتا تھا۔ منہ بولے باپ کی بیوی اور بیٹیوں سے اسی طرح خلا ملا رکھتا تھا جس طرح ماں بیٹے اور بھائی بہنوں میں ہوا کرتا ہے اور متبٰنی بن جانے کے بعد وہ ساری حرمتیں اس کے اور منہ بولے باپ کے درمیان قائم ہوجاتی تھیں جو نسبی رشتے کی بنا پر قائم ہوا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس رسم کو توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے پہلے حکم دیا کہ ’’منہ سے کسی کو بیٹا کہہ دینے سے کوئی شخص حقیقی بیٹا نہیں ہوجاتا۔‘‘ (سورۃ احزاب، آیت ۴۔۵) لیکن دلوں میں صدیوں کے رواج کی وجہ سے حرمت کا جو تخیل بیٹھا ہوا تھا وہ آسانی سے نہیں نکل سکتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اس رسم کو عملاً توڑ دیا جائے۔ اتفاق سے اسی زمانہ میں یہ واقعہ پیش آگیا کہ حضرت زیدؓ نے (جو نبی کریمﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے) حضرت زینب کو (جو ان کے نکاح میں تھیں) طلاق دے دی۔ نبی کریم ﷺ نے محسوس فرمایا کہ یہ موقع ہے اس سخت قسم کی جاہلی رسم کو توڑنے کا، جب تک آپ خود اپنے متبٰنی کی مطلقہ بیوی سے نکاح نہ کریں گے متبٰنی کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنے کا جاہلی تخیل نہ مٹ سکے گا۔ لیکن آپ یہ بھی جانتے تھے کہ مدینہ کے منافقین اور اطراف مدینہ کے یہود اور مکہ کے کفار اس فعل پر ایک طوفان عظیم برپا کردیں گے اور آپ کو بد نام کرنے اور اسلام کو رسوا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ اس لیے آپ عملی اقدام کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود ہچکچا رہے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا اور آپ نے حضرت زینبؓ کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ اس پر جیسا کہ اندیشہ تھا اعتراضات اور بہتان طرازی اور افترا پردازی کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور خود مسلمان عوام کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ انہی اعتراضات اور وسوسوں کو دور کرنے کے لیے سورۃ احزاب کے پانچویں رکوع کی (آیات۳۷۔۴۰ )نازل ہوئیں۔
ان آیات میں پہلے تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ نکاح ہمارے حکم سے ہوا ہے اور اس لیے ہوا ہے کہ مومنوں کے لیے اپنے متبٰنی لڑکوں کی بیوہ اور مطلقہ بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ایک نبی کا یہ کام نہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے میں وہ کسی کے خوف سے ہچکچائے۔ اسکے بعد اس بحث کو ختم اس بات پر فرماتا ہے کہ:
’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘
اس موقع پر یہ فقرہ جو ارشاد فرمایا گیا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معترضین کے جواب میں تین دلائل دینا چاہتا ہے:
اول یہ کہ نکاح بجائے خود قابل اعتراض نہیں ہے، کیونکہ جس شخص کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا گیا ہے وہ محمدﷺ کا واقعی بیٹا نہ تھا اور آپ اس کے حقیقی باپ نہ تھے۔
دوسرے، اگر تم کو یہ شبہ ہو کہ نکاح جائز ہی سہی مگر اس کا کرنا کیا ضرو ر ی تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ محمدﷺ کے لیے اس جائز کام کو کرنا فی الواقع ضروری تھا کیونکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور رسول کو لازم ہے کہ وہ خدا کے قانون کو عملاً جاری کرے اور جو چیزیں بے جا رسوم کے طور پر حرام کردی گئی ہیں ان کی حرمت توڑ دے۔
تیسرے، یہ کام اس لیے اور بھی ضروری تھا کہ محمدﷺ محض نبی ہی نہیں بلکہ آخری نبی ہیں۔ اگر اب آپ کے ہاتھوں یہ جاہلانہ رسم نہ ٹوٹی تو پھر قیامت تک نہ ٹوٹ سکے گی۔ آپ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے کہ جو کسرآپ سے چھوٹ جائے اسے وہ آکر پورا کردے۔
اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ اس سلسلہ بیان میں ختم کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ اگر اسے نفی کمال کے معنی میں لیا جائے تو یہاں یہ لفظ بالکل ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ موقع ومحل صاف تقاضا کررہا ہے کہ یہاں اس کے معنی سلسلہ نبوت کے قطعی انقطاع ہی کے ہونے چاہئیں اس سیاق و سباق میں یہ کہنے کا آخر مطلب ہی کیا ہو سکتا ہے۔ کہ محمدﷺ نے یہ شادی اس لیے کی ہے کہ نبوت کے کمالات ان پر ختم ہو چکے ہیں۔ یہ بات کہی گئی ہوتی تو معترضین فوراً پلٹ کر کہتے کہ خوب ہے یہ کمال نبوت جو ایک عورت سے شادی کرنے کا تقاضا کرتا ہے!
اس کے بعد حدیث کو دیکھیے۔ نبی کریم ﷺ نے خود ختم نبوت کی جو تشریح فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’میری اور انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک محل تھا جس کی عمارت بہت حسین بنادی گئی تھی مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ اب وہ جگہ میں نے آکر بھر دی ہے اور عمارت مکمل ہوگئی ہے۔‘‘یہ بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے۔ آپ کو مشکوۃ باب فضائل سیدالمرسلین میں مل جائے گی۔ اس تشریح کی رو سے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔ آخری اینٹ کی جگہ بھی بھر چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی نئی اینٹ آکر کہاں لگے گی؟ عمارت کے اندر یا اس کے باہر؟
اس کے بعد لغت کی طرف آیئے۔عربی زبان کی کسی مستند لغت کو اٹھا کر لفظ ختم کے معنی دیکھ لیجیے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جو تاویل میں نے اوپر قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کی ہے، عربی زبان بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ ختم کے اصل معنی مہرلگانے، بند کرنے اور کسی چیز کا سلسلہ منقطع کر دینے کے ہیں۔ ختم الاناء کے معنی ہیں’’برتن کا منہ بند کردیا۔‘‘ختم العمل کے معنی ہیں ’’کام پورا کرکے اس سے فارغ ہوگیا‘‘۔ختم الکتاب کے معنی ہیں خط پورا کرکے اس پر مہر لگادی۔ خود قرآن میں منکرین حق کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ختم اللہ علٰی قلوبھم۔ ’’خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘یعنی ان کے دل قبول حق کے لیے بند کردیے گئے ہیں، نہ ایمان ان کے اندر جا سکتا ہے، نہ کفر ان میں سے نکل سکتا ہے۔ پس حضور اکرمﷺ کو خاتم النبیین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کا سلسلہ مکمل کرکے آپ کو اس پر مہر کے طور پر نصب کردیا ہے۔ اب اس سلسلہ میں کوئی نیا نبی داخل نہیں ہو سکتا۔
(نیو سنٹرل جیل ملتان۶؍اپریل۵۰ء)