وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت اسلامی کا مسلک
سوال: اس وقت مسلمانان ہند دو فتنوں میں مبتلا ہیں۔ اول کانگریس کی وطنی تحریک کا فتنہ جو واحد قومیت کے مفروضے اور مغربی ڈیموکریسی کے اصول پر ہندوستان کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔ دوم مسلم نیشنلزم کی تحریک جسے لیگ چلا رہی ہے اور جس پر ظاہر میں تو اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر باطن میں روح اسلامی سراسر مفقود ہے۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے مطالعہ سے یہ بات ہم پر واضح ہوچکی ہے کہ یہ دونوں تحریکیں اسلام کے خلاف ہیں۔ لیکن حدیث میں آیا ہے کہ انسان جب دو بلاؤں میں مبتلا ہو تو چھوٹی بلا کو قبول کرلے۔ اب کانگریس کی تحریک تو سراسر کفر ہے۔ اس کا ساتھ دینا مسلمانوں کی موت کےمترادف ہے اس کے مقابلے میں لیگ کی تحریک اگرچہ غیر اسلامی ہے، لیکن اس سے یہ خطرہ تو نہیں کہ دس کروڑ مسلمان ہند کی قومی ہستی ختم ہوجائے۔ لہٰذا کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم لیگ سے باہر رہتے ہوئے اس کے ساتھ ہمدردی کریں؟ اس وقت ہندوستان میں انتخابات کی مہم درپیش ہے اور یہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف تمام غیر لیگی عناصر مل کر مسلم لیگی کو پچھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں اگر وہ کامیاب ہوجائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کانگریس کی وطنی تحریک مسلمانوں پر زبردستی مسلط ہو کے رہ جائے گی۔ دوسری طرف مسلم لیگ یہ کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں اور وہ اپنی قومی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان دونوں کا فیصلہ رائے دہندوں کے ووٹ پر منحصر ہے۔ ایسی صورت میں ہم کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟ کیا ہم لیگ کے حق میں ووٹ دیں اور دلوائیں؟ یا خاموش بیٹھے رہیں؟ یا خود اپنے نمائندے کھڑے کریں؟
جواب: آپ کے ذہن پر ملک کے موجودہ سیاسی حالات کا غلبہ ہے۔ اس لئے آپ کو صرف دو ہی فتنے نظر آئے جن میں ہندوستان کے مسلمان مبتلا ہیں۔ حالانکہ اگر آپ ذرا وسیع نگاہ سے دیکھتے تو ان دو فتنوں کے علاوہ آپ کو اور بہت سے اخلاقی، فکری، تمدنی، مذہبی اور سیاسی و معاشی فتنے نظر آتے جو اس وقت مسلمانوں پر ہجوم کئے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ ایک فطری سزا ہے جو اللہ کی طرف سے ہر اس قوم کو ملا کرتی ہے جو کتاب اللہ کی حامل ہونے کے باوجود اس کے اتباع سے منہ موڑتی اور اس کے منشا کے مطابق کام کرنے سے جی چراتی ہے۔ اس سزا سے اگر مسلمان کبھی بچ سکتے ہیں تو صرف اس طرح کہ اپنے اس اصلی و بنیادی جرم سے با زآجائیں جس کی پاداش میں ان پر فتنے مسلط ہوئے ہیں اور کام کے لئے کھڑے ہوجائیں جس کی خاطر انہیں کتاب اللہ دی گئی تھی۔لیکن اگر وہ اس سے منہ موڑتے ہیں تو پھر جو تدبیریں چاہیں کر کے دیکھ لیں، یقین جانئے کہ کسی ایک فتنہ کا بھی سدباب نہ ہوگا بلکہ ہر تدبیر چند اور فتنے قائم کردے گی۔
آپ نے جو سوال پیش کیا ہے اس کے متعلق میں دو باتیں واضح طور پر عرض کئے دیتا ہوں تاکہ آپ کو اور آپ کی طرح سوچنے والے اصحاب کو آئندہ اس سلسلہ میں کوئی الجھن نہ پیش آئے۔
اول یہ کہ جماعت اسلامی کے مقصد قیام کو اچھی طرح سمجھ لیجئے۔ یہ جماعت کسی ملک یا قوم کے وقتی مسائل کو سامنے رکھ کر وقتی تدابیر سے ان کو حل کرنے کے لئے نہیں بنی ہے۔ نہ اس کی بنائے قیام یہ قاعدہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لئے جس وقت جو اصول بھی چلتے نظر آئیں ان کو اختیار کر لیا جائے۔ اس جماعت کے سامنے تو صرف ایک ہی عالمگیر اور ازلی و ابدی مسئلہ ہے جس کی لپیٹ میں ہر ملک اور ہر قوم کے سارے وقتی مسائل آجاتے ہیں اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی دینوی فلاح اور اخروی نجات کس چیز میں ہے؟ پھر اس مسئلے کا ایک ہی حل اس جماعت کے پاس ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام بزرگان خدا، جن میں ہندوستان کے مسلمان بھی شامل ہیں صحیح معنوں میں خدا کی بندگی اختیار کریں اور اپنی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی کو اس کے سارے پہلوؤں سمیت ان اصولوں کی پیروی میں دے دیں جو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں اس مسئلے اور اس کے اس واحد حل کے سوا دنیا کی کسی دوسری چیز سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جو شخص ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ ہر طرف سے نظر ہٹا کر پوری جمعیت خاطر کے ساتھ اس شاہراہ پر قدم جمائے چلتا رہے۔ اور جو شخص اتنی ذہنی و عملی یکسوئی بہم نہ پہنچا سکے۔ جس کے ذہن کو اپنے ملک یا اپنی قوم کے وقتی مسائل بار بار اپنی طر ف کھینچتے ہوں، اور جس کے قدم بار بار ڈگمگا کر ان طریقوں کی طرف پھسلتے ہوں جو دنیا میں آج رائج ہیں ان کے لئے زیادہ مناسب یہ ہے کہ پہلے ان ہنگامی تحریکوں میں جاکر اپنا دل بھر لے۔
دوم یہ کہ ووٹ اور الیکشن کے معاملے میں ہماری پوزیشن کو صاف صاف ذہن نشین کر لیجئے۔ پیش آمدہ انتخاب یا آئندہ آنے والے اسی طرح کے انتخابات کی اہمیت جو کچھ بھی ہو اور ان کا جیسا کچھ بھی اثر ہمارے قوم یا ہمارے ملک پر پڑتا ہو، بہرحال ایک با اصول جماعت ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے ناممکن ہے کہ کسی وقتی مصلحت کی بنا پر ہم ان اصولوں کی قربانی گوارا کرلیں جن پر ہم ایمان لائے ہیں۔ موجودہ کافرانہ نظام کے خلاف ہماری لڑائی ہی اس بنیاد پر ہے کہ یہ نظام حاکمیت جمہور کے اصول پر قائم ہوا ہے اور جمہور جس پارلیمنٹ یا اسمبلی کو منتخب کریں یہ اس کو قانون بنانے کا غیر مشروط حق دیتا ہے جس کے لئے کوئی بالاتر سند اس کو تسلیم نہیں ہے۔ بخلاف اس کے ہمارے عقیدہ توحید کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ حاکمیت جمہور کی نہیں بلکہ خدا کی ہو اور آخری سند خدا کی کتاب کو مانا جائے اور قانون سازی جو کچھ بھی ہو کتاب الہٰی کے تحت ہو نہ کہ اس سے بے نیاز۔ یہ ایک اصولی معاملہ ہے جس کا تعلق عین ہمارے ایمان اور ہمارے اساسی عقیدے سے ہے۔ اگرہندوستان کے علماء اور عامہ مسلمین اس حقیقت سے ذہول برت رہے ہوں اور وقتی مصلحتیں ان کے لئے مقتضیاتِ ایمانی سے اہم تر بن گئی ہوں تو اس کی جواب دہی وہ خدا کے سامنے کریں گے۔ لیکن ہم کسی فائدے کے لالچ اور کسی نقصان کے اندیشے سے اس اصولی مسئلے میں موجودہ نظام کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت نہیں کرسکتے۔ آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ توحید کا عقیدہ رکھتے ہوئے آخر ہم کس طرح انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟ کیا ہمارے لئے یہ جائز ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم کتاب اللہ کی سند سے آزاد ہو کر قانون سازی کرنے کو شرک قرار دیں اور دوسری طرف خود اپنے ووٹوں سے ان لوگوں کو منتخب کرنے کی کوشش کریں جو خدا کے اختیارات غصب کرنے کے لئے اسمبلیوں میں جانا چاہتے ہیں؟ اگر ہم اپنے عقیدے میں صادق ہیں تو ہمارے لئے اس معاملہ میں صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنا سارا زور اس اصول کے منوانے میں صرف کردیں کہ حاکمیت صرف خدا کی ہے اور قانون سازی کتاب الہٰی کی سند پر مبنی ہونی چاہئے۔ جب تک یہ اصول نہ مان لیا جائے ہم کسی انتخاب اور کسی رائے دہی کو حلال نہیں سمجھتے۔
(ترجمان القرآن۔رمضان، شوال ۶۴ھ۔ ستمبر، اکتوبر ۴۵ء)