نظام اسلامی کے قیام کی صحیح ترتیب
سوال:جن لوگوں سے پاکستان کے آئندہ نظام کے متعلق گفتگو ہوتی ہے وہ اکثر اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ اور دوسرے اہل علم اسلامی حکومت کا ایک دستور کیوں نہیں مرتب کرتے تاکہ اسے آئین ساز اسمبلی میں پیش کرکے منظور کرایا جائے؟ اس سوال سے صرف مجھ کو ہی نہیں دوسرے کارکنوں کو بھی اکثر و بیشتر سابقہ پیش آتا ہے۔ گو ہم اپنی حد تک لوگوں کو بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ضرورت ہے کہ آپ اس سوال کا جواب ترجمان القرآن میں دیں تاکہ وہ بہت سی غلط فہمیاں صاف ہوسکیں جن پر یہ سوال مبنی ہے۔
جواب: آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا مفصل جواب تو سردست نہیں دیا جاسکتا لیکن مختصر طور پر میں ایک بات عرض کروں گا جس سے امید ہے کہ آپ معاملہ کی اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔
ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ جہاں نہ معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی ہو نہ اخلاق اسلامی، جہاں کا سیاسی و معاشی اور تعلیمی نظام بھی اب تک غیر اسلامی خطوط پر ترقی کرتا رہا ہو، اور جہاں ایک مجرد سیاسی تحریک کی بدولت ایک آزاد ریاست بننے کی یکایک نوبت آگئی ہو۔ وہاں اسلامی نظام کا قیام صرف اتنی سی بات پر اٹکا ہو کہ ہم ایک دستور مرتب کرکے پیش کریں اور برسراقتدار لوگ اسے لے کر نافذ کردیں۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ گمان کرے کہ ایک مدرسے یا ایک بینک کو ہسپتال بنادینے میں بس اتنی کسر ہے کہ چند ڈاکٹر مل کر ایک اچھے ہسپتال کا خاکہ مرتب کردیں اور وہ مدرسے کے معلمین یا بینک کے اسٹاف کو دے دیا جائے تاکہ وہ اسے دیکھ دیکھ کر سارا کام کرتے چلے جائیں۔ تعجب ہوتا کہ ہمارے ہاں اچھے خاصے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس سادگی کے ساتھ سوچ رہے ہیں۔ شاید دستور کو انہوں نے کوئی تعویز سمجھا ہے!
واضح طور پر سمجھ لیجئے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:
ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے وہ اسلام کے معاملہ میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے اپنی قوم سے کئے تھے اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کرلیں اور ایمانداری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ اس صورت میں معقول طریق کار یہ ہے کہ پہلے ہماری دستور ساز اسمبلی ان بنیادی امور کا اعلان کرے جو ایک غیر اسلامی نظام کو اسلامی نظام میں تبدیل کرنے کے لئے اصولاً ضروری ہیں (جنہیں ہم نے اپنے ’’مطالبہ‘‘ میں بیان کردیا) پھر وہ اسلام کا علم رکھنے والے لوگوں کو دستور سازی کے کام میں شریک کرے اور ان کی مدد سے ایک مناسب ترین دستور بنائے، پھر نئے انتخابات ہوں اور قوم کو موقع دیا جائے کہ وہ زمام کار سنبھالنے کے لئے ایسے لوگوں کو منتخب کرے جو اس کی نگاہ میں اسلامی نظام کی تعمیر کے لئے اہل ترین ہوں۔ اس طرح صحیح جمہوری طریق پر اختیارات اہل ہاتھوں میں بہ سہولت منتقل ہوجائیں گے اور وہ حکومت کی طاقت اور ذرائع سے کام لے کر پورے نظام زندگی کی تعمیر جدید اسلامی طرز پر کرسکیں گے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعہ سے اس میں خالص اسلامی شعور و ارادہ کو بتدریج اس حد تک نشونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے مکمل اسلامی نظام وجود میں آجائے۔
ہم اس وقت پہلے طریقہ کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہوگئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لئے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لئے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آگیا۔ لیکن اگر خدانخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کردی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیام پاکستان کی راہ میں انہوں نے کیں۔اور اس معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کےبعد بھی اسلامی نقطہ نظرسےاسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقہ پر کام شروع کردیں گے، جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔
امید ہے کہ اس توضیح سے لوگ ہماری پوزیشن کو اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔ ہم کوئی کام وقت سے پہلے نہیں کرنا چاہتے۔ سردست ہم نے اسلامی نظام کے بنیادی امور کو ایک مطالبہ کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اگر اسے قبول کرلیا جائے تو دستور سازی کے کام میں جس حد تک ممکن ہوگا ہم پوری مدد کریں گے۔ لیکن اگر سرے سے یہ بنیادی امور ہی برسراقتدار لوگوں کو منظور نہ ہو تو پھر دستور کا خاکہ پیش کرنے سے آخر کیا فائدہ متصور ہے؟
(ترجمان القرآن۔ ذی العقدہ ۱۳۶۷ھ۔ ستمبر ۱۹۴۸ء)