پردے پر ایک خاتون کے اعتراضات اور ان کا جواب
سوال:میں آپ کی کتاب رسالہ دینیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ رہی تھی۔ صفحہ ۱۸۲ تک مجھے آپ کی تمام باتوں سے اتفاق تھا۔ اس صفحے پر پہنچ کر میں نے آپ کی یہ عبارت دیکھی کہ ’’اگر عورتیں ضرورتاً گھر سے باہر نکلیں تو سادہ کپڑے پہن کر اور جسم کو اچھی طرح ڈھانک کر نکلیں، چہرہ اور ہاتھ اگر کھولنے کی شدید ضرورت نہ ہوتو ان کو بھی چھپائیں‘‘۔ اور اس کے بعد دوسرے ہی صفحے پر یہ عبارت میری نظر سے گزری کہ ’’کوئی عورت چہرے اور ہاتھ کے سوا اپنے جسم کا کوئی حصہ (باستثنائے شوہر) کسی کے سامنے نہ کھولے خواہ وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ مجھے اول تو آپ کی ان دونوں عبارتوں میں تضاد نظر آتا ہے۔ دوسرے آپ کا پہلا بیان میرے نزدیک قرآن کی سورہ نور کی آیت ۲۴ کے خلاف ہے اور اس حدیث سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جس میں نبیﷺ نے حضرت اسماءؓ سے فرمایا تھا کہ لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ ہاتھ اور منہ کے سوا نظر نہ آنا چاہیے۔
کتاب کے آخر میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’شریعت کے قوانین کسی مخصوص قوم اور مخصوص زمانے کے رسم و رواج پر مبنی نہیں ہیں اور نہ کسی مخصوص قوم اور مخصوص زمانے کے لوگوں کے لیے ہیں‘‘۔ مگر قرآن کو دیکھنے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ پردہ محض ایک رواجی چیز ہے اور اسے اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا آپ یہ مانیں گے کہ آپ نے اسلامی قانون کی غلط تعبیر کرکے بہت سے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کا سامان کیا ہے؟ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا اسلام اس طرح پیش کیا جائے جس سے اس زمانے کے نوجوان اس کو قبول کرنے سے بھاگیں۔ اسلام کی عائد کردہ قیود سے بڑھ کر اپنی طرف سے کچھ قیود عائد کرنے کا کسی کو کیا حق ہے؟
(یہ ایک مسلمان خاتون کے انگریزی خط کا ترجمہ ہے جو امریکہ سے آیا تھا)
جواب: میں آپ کی صاف گوئی کی قدر کرتا ہوں۔ مگر میرا خیال ہے کہ آپ نے پوری طرح میری بات کو نہیں سمجھا۔ صفحہ ۱۸۲ اور ۱۸۳ پر جو کچھ میں نے کہا ہے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ عورت کے لیے شریعت کے احکام تین اجزاء پر مشتمل ہیں:
چہرے اور ہاتھ کے سوا جسم کے دوسرے حصوں کو شوہر کے سوا کسی کے سامنے عورت کو نہ کھولنا چاہیے، کیونکہ وہ ’’ستر‘‘ ہیں اور ستر صرف شوہر ہی کے سامنے کھولنا چاہیے۔
چہرہ اور ہاتھ ان تمام رشتہ داروں کے سامنے لے جاسکتے ہیں، اور عورت اپنی زینت کے ساتھ ان تمام رشتہ داروں کے سامنے آسکتی ہے جن کا ذکر سورہ نمبر ۲۴، آیت نمبر ۳۱ میں کیا گیا ہے۔
ان رشتہ داروں کے سوا عام اجنبی مردوں کے سامنے عورت کو اپنی زینت بھی چھپانی چاہیے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں بیان کیا گیا ہے، اور اپنے چہرے کو بھی چھپانا چاہیے جیسا کہ سورۃ نمبر ۳۳ آیات ۵۳ تا ۵۵ اور آیت ۵۹ میں بیان کیا گیا ہے۔
انگریزی مترجمین ان آیات کا ترجمہ کرنے میں بالعموم گھپلا کردیتے ہیں، لیکن اگر آپ عربی جانتی ہیں تو آپ کو خود یہ آیات اصل عربی میں دیکھنی چاہییں۔ ان کو پڑھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید، شوہر، رشتہ داروں اور اجنبی مردوں کے بارے میں عورتوں کے لیے الگ الگ حدود مقرر کرتا ہے اور اجنبی مردوں سے ان کو پورا پردہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔
آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ پردہ محض لوگوں کی ’’رسم‘‘ پر مبنی ہے۔ قرآن کے آنے سے پہلے اہل عرب حجاب (پردے) کے تصور سے قطعی نا آشنا تھے۔ یہ قاعدہ سب سے پہلے قرآن ہی نے ان کے لیے مقرر کیا۔ اور بعد میں صرف مسلمانوں ہی کے اندر پردے کا رواج رہا۔ دنیا کی کوئی دوسری قوم اس کی پابند نہ تھی، نہ ہے، آخر آپ کے نزدیک وہ کس کی ’’رسم‘‘ ہے جو پردے کی صورت میں مسلمانوں کے اندر رائج ہوئی؟
آپ کا یہ خیال ٹھیک ہے کہ بے جا قیود کو اپنی طرف سے بڑھانے کا حق نہیں ہے۔ مگر جو قیود قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں، کسی مسلمان کو ماڈرن ازم میں مبتلا ہو کر انہیں توڑنے کی فکر بھی نہ کرنی چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ اردو جانتی ہیں یا نہیں، اگر اردو کتابیں پڑھ سکتی ہوں تو میری کتاب پردہ، تفسیر سورہ نور اور تفسیر سورہ احزاب مطالعہ فرمائیں۔ ان سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ پردے کے احکام قرآن کی کن آیات اور رسول اللہﷺ کی کن احادیث پر مبنی ہیں، اور آپ یہ بھی جان لیں گی کہ یہ قیود آیا بعد کے لوگوں نے بڑھا دی ہیں یا اللہ اور اس کے رسول ہی نے عائد کیا ہے۔
(ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۶۶ء)