ذکرِ الٰہی اور اس کے طریقے
سوال: ذکرِ الٰہی کے مسنون یا غیر مسنون ہونے کے معاملے میں مجھے بعض ذہنی اشکالات پیش آ رہے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا ایک اثر بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے بعض شاگردوں کو دیکھا کہ وہ ذکر کے لیے ایک مقررہ جگہ پر جمع ہوا کرتے تھے تو غصے میں فرمایا کہ کیا تم اصحاب رسولؐ اللہ سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ ہو؟ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسولؐ اللہ کے زمانے میں تو میں نے اس طرح کا ذکر نہیں دیکھا، پھر تم لوگ کیوں یہ نیا طریقہ نکال رہے ہو؟
دوسری طرف مشکوٰۃ میں متعدد احادیث ایسی موجود ہیں جن سے اجتماعی ذکر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً حضرت انسؓ راوی ہیں کہ نبیﷺ نے ذکر کے حلقوں کو جنت کے باغوں سے تشبیہ دی ہے۔ حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ نہیں بیٹھتی کوئی قوم ذکر الٰہی کے لیے مگر یہ کہ گھیر لیتے ہیں اسے فرشتے اور چھاجاتی ہے اس پر رحمت۔ اسی طرح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ فرشتے ذکر الٰہی کی مجالس کو ڈھوندھتے ہیں اور ان میں بیٹھتے ہیں۔
ان احادیث کی روشنی میں حلقہ ذکر کا بدعت ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ واضح کریں کہ ارشادات نبوی کی موجودگی میں حضرت ابن مسعودؓ کی کیا صحیح توجیہ ہوسکتی ہے؟
جواب: لفظ ذکر کا اطلاق بہت سی چیزوں پر ہوتا ہے۔ اس کے ایک معنی دل میں اللہ کو یاد کرنے یا یاد رکھنے کے ہیں۔ دوسرے معنی اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں طرح طرح سے اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں، مثلاً موقع بموقع الحمد للہ، ماشاء اللہ، انشاء اللہ، سبحان اللہ وغیرہ کہنا، بات بات میں کسی نہ کسی طریقے سے اللہ کا نام لینا، رات دن کے مختلف احوال میں اللہ سے دعا مانگنا، اور اپنی گفتگوؤں میں اللہ کی نعمتوں اور حکمتوں اور اس کی صفات اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر کرنا۔ تیسرے معنی قرآن مجید اور شریعت الٰہیہ کی تعلیمات بیان کرنے کے ہیں، خواہ وہ درس کی شکل میں ہوں، یا باہم مذاکرہ کی شکل میں، یا وعظ و تقریر کی شکل میں۔ چوتھے معنی تسبیح و تہلیل و تکبیر کے ہیں۔ جن احادیث میں ذکر الٰہی کے حلقوں اور مجلسوں پر حضورﷺ کے اظہار تحسین کا ذکر آیا ہے، ان سے مراد تیسری قسم کے حلقے ہیں۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جس چیز پر اظہار ناراضی کیا ہے اس سے مراد چوتھی قسم کا حلقہ ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ کے عہد میں حلقے بنا کر تسبیح و تہلیل کا ذکر جہری کرنا رائج نہ تھا، نہ حضورﷺ نے اس کی تعلیم دی اور نہ صحابہؓ نے یہ طریقہ اختیار کیا۔ رہا پہلے دو معنوں میں ذکر الٰہی، تو ظاہر ہے کہ وہ سرے سے حلقے بنا کر ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ لازماً انفرادی ذکر ہی ہوسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۶ء)