درود میں ’’سیدّنا و مولانا کا استعمال اور بعض اہم اصولی بحثیں | نمبر 2
اضافے کی نظیریں
اس کے بعد ان نظائر کی طرف آئیے جو تعبُّدی اور توقیفی امور میں بیشی، اور اورادِ صلوٰۃ کے ماثور الفاظ پر اضافے کے بارے میں ہم کو احادیث میں ملتی ہیں۔
حکم آنے سے پہلے مدینے میں جمعہ کا قیام
عبد بن حمید، ابن المنذر اور عبدالرزاق نے ابن سیرین سے جو روایات نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کے مدینے تشریف لے جانے سے پہلے، بلکہ جمعہ کی فرضیت کا حکم نازل ہونے سے بھی پہلے مدینہ طیبہ میں انصار نے آپس میں مشورہ کیا کہ جس طرح یہودونصاریٰ نے ہفتے میں ایک دن اجتماعی عبادت کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔ اسی طرح ہم بھی ایک دن اس کام کے لیے مختص کرلیں۔ پھر انہوں نے جمعہ کا دن اس کے لیے تجویز کیا اور اس کا قدیم نام یومِ عَرُوبَہ چھوڑ کر نیا نام جمعہ رکھ دیا۔ اس تجویز کے مطابق پہلی نماز جمعہ حضرت اسعد بن زُرارہ نے پڑھائی۔ اس کی تائید ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم، بیہقی اور دارقطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے جو حضرت کعب بن مالکؓ سے ان کے صاحبزادے عبدالرحمٰن نے نقل کی ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جمعہ حضرت اسعد بن زُرارہؓ نے قائم کیا تھا جس میں چالیس آدمی شریک ہوئے تھے۔ دارقطنی میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جمعہ کا حکم مکہ معظمہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوا۔ اس وقت مکے میں اقامت جمعہ ممکن نہ تھی۔ اس لیے رسول اللہؐ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو لکھا کہ تم مدینے میں جمعہ قائم کرو۔ طبرانی میں حضرت ابو مسعود انصاری کی روایت ہے کہ اس حکم کے مطابق جو پہلی نماز جمعہ حضرت مصعبؓ نے پڑھائی اس میں بارہ آدمی شریک تھے۔ یہاں دیکھیے، صحابہ کی ایک جماعت باہمی مشورے سے بطور خود ایک نئی نماز کا اضافہ کرتی ہے، حضورؐ کی حیات طیبہ میں یہ واقعہ پیش آتا ہے، مگر اس پر حضورﷺ کسی ناراضی کا اظہار نہیں فرماتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اسی نماز کی فرضیت کا حکم نازل ہوجاتا ہے، اور وہی نماز جو حکم سے پہلے شروع کی گئی تھی، ازروئے حکم قائم کی جانے لگتی ہے۔
حضورﷺ کی موجودگی میں ماثور الفاظ پر اضافہ
بخاری، مسلم، ابوداؤد، مسند احمد، نسائی اور طبرانی میں حضرت رفاعہؓ بن رافع کی روایت ہے کہ ایک روز ہم رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ رکوع سے سر اٹھا کر جب حضورؐ نے سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ فرمایا تو پیچھے سے ایک شخص نے کہا رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْداً کَثِیْراً طَیِّباً مُبَارَکاً فِیہِ نماز سے فارغ ہو کر حضورؐ نے پوچھا ابھی ابھی یہ بات کس نے کہی تھی؟ اس نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ میں نے ۔ حضورؐ نے فرمایا’’ میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اس کو لکھ لینے کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ یہاں بھی آپ دیکھ لیں کہ اس شخص نے حضورؐ کے سکھائے ہوئے الفاظ پر مزید چند الفاظ کا اضافہ خود کیا تھا۔ یہ زائد الفاظ حضورؐ کے بتائے ہوئے نہ تھے۔ اور اس نے ماثور الفاظ پر یہ اضافہ حضورؐ کی موجودگی میں حضورؐ کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے کیا تھا۔ آپ کے نقطۂ نظر سے تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ حضورؐ اس پر سخت ناراضی کا اظہار فرماتے اور اسے ڈانٹتے کہ ماثور الفاظ پر اپنی طرف سے چند الفاظ بڑھا کر تو نے خلاف شرع حرکت کی ہے، تو میرے سامنے دین کے اندر ایک نیا طریقہ اختراع کرنے کی جسارت کر بیٹھا ہے، تیرے بڑھائے ہوئے الفاظ اگر شریعت میں مطلوب ہوتے تو میں ان کی تعلیم دیتا، تو ان کو اورادِ نماز میں داخل کرنے والا کون ہوتا تھا۔ لیکن حضورؐ نے اس کو پوری جماعت کے سامنے یہ بشارت دی کر تیرے کلمات اتنے قابل قدر تھے کہ فرشتے ان کو لکھنے کے لیے دوڑ پڑے، اور ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ ان الفاظ کو ثبت کرنے کی سعادت اسے نصیب ہوجائے۔
تشّہُد کے ماثور الفاظ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے داخل کردہ الفاظ کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں اور یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اس سے جان چھڑانے کے لیے جو تاویل آپ نے کی ہے وہ بالکل بے معنی ہے۔
ایک نئی اذان کا اضافہ
مسند احمد اور نسائی کی روایت ہے کہ جمعہ کے روز رسول اللہؐ جب منبر پر تشریف فرما ہوجاتے تھے تب بلال اذان دیتے تھے، اور جب آپ منبر سے اترتے تھے تو وہ تکبیر اقامت کہتے تھے۔(یہ گویا دو اذانیں تھیں جو حضورؐ کے زمانے میں مقرر ہوئیں)۔ بخاری، نسائی، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت سائبؓ بن یزید کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ اور حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کے عہد میں جمعے کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر جب حضرت عثمانؓ کا زمانہ آیا اور آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے تیسری اذان (یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر آنے سے پہلے دی جاتی ہے) کا حکم دیا جو زوراء (یہ مدینہ کے بازار میں ایک اونچا گھر تھا جس کی چھت پر موذن اذان دیتا تھا کہ دور دور تک آواز پہنچ جائے۔) کے مقام پر دی جاتی تھی۔ بخاری کی ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ جمعہ کے روز تیسری اذان کا اضافہ کرنے والے حضرت عثمانؓ تھے، جبکہ اہل مدینہ کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ طبرانی کی روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے حکم دیا کہ پہلی اذان اس مکان پر دی جائے جس کا نام زوراء تھا۔ پھر جب وہ منبر پر بیٹھ جاتے تھے تو ان کا مؤذن اذان دیتا تھا اور جب وہ منبر سے اترتے تھے تو مؤذن تکبیر اقامت کہتا تھا۔ یہ تعبدی امور کے دائرے میں ماثور و مسنون عمل پر ایک صریح اضافہ تھا جو خلیفہ برحق نے ایسے زمانے میں کیا تھا جبکہ صحابہ و تابعین سے دنیائے اسلام بھری پڑی تھی، مگر اس کی مخالفت تو کیا ہوتی، اسلامی دنیا کے بلادوامصار میں وہ مقبول ہوگئی۔ صرف ایک ابن عمر ؓ ہیں جن کے متعلق ابن ابی شیبہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اسے بدعت کہا تھا۔ مگر حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ ’’ان کے اس قول میں یہ احتمال بھی ہے کہ انہوں نے اسے منکر سمجھتے ہوئے بدعت کہا ہو، اور یہ احتمال بھی کہ انہوں نے اسے صرف اس بنا پر بدعت قرار دیا ہو کہ یہ طریقہ نبیﷺ کے زمانے میں رائج نہ تھا، اور ہر وہ کام جو آپ کے زمانے میں نہ ہوا ہو بدعت کہلاتا ہے۔ لیکن ایسے کاموں میں بعض اچھے ہوتے ہیں اور بعض اس کے خلاف‘‘۔ حافظ کے اس خیال کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ خود حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس سے پہلے ایک ’’اچھی بدعت‘‘ کا ارتکاب کرچکے تھے۔ مزید برآں ایک اور فعل کو بھی انہوں نے بدعت قرار دینے کے بعد اس کی تحسین فرمائی تھی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
ابن عمرؓ کا چاشت کی نماز کو ’’اچھی بدعت‘‘ کہنا
صلوٰۃ ضحیٰ (چاشت کی نماز) کا پڑھنا بجائے خود تو رسول اللہﷺ کے عمل سے ثابت ہے، اس لیے اس کے سنت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس کا التزام، یا مسجدوں میں اس کا پڑھا جانا حضورؐ کے عہد مبارک میں رائج نہ تھا، بعد کے لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی رائے اس کے بارے میں دریافت کی گئی تو انہوں نے کہا ’’بدعت ہے اور اچھی بدعت‘‘ (ابن ابی شیبہ)۔ ایک اور روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’یہ نیا نکالا ہوا طریقہ ہے اور ان اچھے طریقوں میں سے ہے جو لوگوں نے نکال لیے ہیں‘‘ (سعید بن منصور)۔ اور ایک تیسری روایت میں ان کا ارشاد ہے ’’لوگوں نے کوئی نئی چیز ایسی نہیں نکالی ہے جو مجھ کو اس سے زیادہ محبوب ہو‘‘ (عبدالرزاق)۔ یہ تینوں روایتیں بالکل صحیح سندوں سے منقول ہوئی ہیں۔ ملاحظہ ہو فتح الباری، باب صلوٰۃ الضحیٰ۔
حضرت عمرؓ کا تراویح کو ’’اچھی بدعت‘‘ کہنا
نماز تراویح بھی حضورؐ کے عمل سے ثابت ہے، اس لیے اس کے سنت ہونے میں اختلاف نہیں ہے۔ مگر مسجد میں اس کا ایک ہی امام کے پیچھے پڑھا جانا، اور اسے باجماعت ادا کرنے کا عام رواج ایک نیا طریقہ تھا جو حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں جاری کیا اور اس کے بارے میں فرمایا نِعْمَۃُ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ (یہ ایک اچھی بدعت ہے)۔ یہ بھی تعبُّدی امور کے بارے میں شارع کے طریقے پر ایک اضافہ ہی تھا، لیکن حضرت عمرؓ جیسے سخت متبع سنت صحابی و خلیفہ نے اسے نیا طریقہ جانتے ہوئے اچھا طریقہ سمجھ کر جاری کیا اور صحابہ و تابعین، آئمہ مجتہدین، فقہاء و محدثین، سب نے بلا تامل اس کی پیروی کی۔
درود میں سیدنا و مولانا کے الفاظ کا استعمال
اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تعبدی اعمال میں ردّوبدل اور کمی بیشی کا قطعاً ممنوع ہونا، اور اس قاعدہ کلیہ میں کسی استثناء کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہ ہونا ایک ایسا تشدد ہے جس کی تائید احادیث صحیح سے نہیں ہوتی۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ درود میں ماثور الفاظ پر ’’سیدنا و مولانا‘‘ کا اضافہ کیا واقعی ناجائز اور ممنوع ہے؟ لیکن میں اس بحث کے آغاز ہی میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ درود میں صرف وہ الفاظ بڑھانا جائز سمجھتا ہوں جو بجائے خود حضورؐ کے لیے اور دوسرے لوگوں کے لیے مشروع ہوں خواہ درود کے ماثور الفاظ میں وہ شامل نہ ہوں۔
درود کے ماثور الفاظ پر ابن مسعودؓ کا اضافہ
آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ احادیث سے جتنے درود (یعنی نبی ﷺ کے درود) ثابت ہیں، ان میں سیدنا کا لفظ شامل نہیں ہے، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے، اگرچہ وہ حافظ ابن حجرؒ ہی نے کیا ہو، کہ کسی صحابی سے ایساکوئی درود ثابت نہیں ہے۔ ابن ماجہ، باب الصلوٰۃ علی النبیؐ میں حضرت عبداللہ بن مسعوؓ کا یہ ارشاد موجود ہے کہ اذا صَلّیتم علیٰ رسول اللہﷺ فَاَحْسِنُوا الصَّلوٰۃ علیہ فانکم لاتدرون لعلّ اللہ ذالک یُعْرَض علیہ۔ ’’تم لوگ جب رسول اللہﷺ پر درود بھیجو تو حسن و خوبی کے ساتھ بھیجو، تمہیں کیا خبر، ہوسکتا ہے کہ تمہارا درود حضورؐ کے سامنے پیش ہو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا ’’تو پھر وہ آپ ہمیں سکھا دیں‘‘۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ یوں کہا کرو: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صَلوٰتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَ بَرَکَاتِکَ عَلیٰ سَیِّدِالْمُرْسَلِیْنَ وَ اِمَامِ الْمُتَّقِیْنَ وَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامٍ الْخَیْرِ وَ قَائِدِ الْخَیْرِ وَرَسُوْلِ الرَّحْمَۃِ، اَللّٰھُمَّ ابْعَثْہُ مَقَاماً مَّحْمُوْداً یَغْبِطُہٗ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَالْاٰخِرُوْنَ۔’’خدایا، اپنی عنایت و رحمت اور اپنی برکتیں نازل فرما رسولوں کے سردار، متقیوں کے پیشوا اور نبیوں کے خاتم محمد ﷺ پر جو تیرے بندے اور رسول ہیں، جو نیکی اور بھلائی کے امام و قائد اور رسول رحمت ہیں۔ خدایا ان کو اس مقام محمود پر پہنچا جس پر اولین اور آخرین رشک کریں‘‘۔ اس کے بعد حضرت ابن مسعودؓ نے درود کے وہ ماثور الفاظ پژھے جو رسول اللہﷺ کے تعلیم کردہ ہیں۔
حضرت عبداللہؓ کے اس ارشاد کا صحیح مطلب اس مثال سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اگر کوئی شریف آدمی کسی کے ہاں جاتا ہے اور اس کے ملازم سے اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لیے کہتا ہے تو اپنی زبان سے وہ خود یہ نہیں کہتا کہ صاحب خانہ سے کہو ’’مولانا عبدالرحمٰن تشریف لائے ہیں‘‘۔ بلکہ وہ کہتا ہے ”عبدالرحمٰن حاضر ہوا ہے۔“ اب یہ ملازم کی تمیز پر موقوف ہے کہ وہ صاحب خانہ کو اطلاع دینے کے لیے آنے والے کے مرتبے کے مطابق الفاظ استعمال کرتا ہے یا ٹھیک وہی الفاظ دہرا دیتا ہے جو آنے والے نے اپنے لیے استعمال کیے تھے۔
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ ابن مسعود ؓ سے اس کو حضرت اسود بن یزید نے روایت کیا ہے جو جلیل القدر تابعین میں سے تھے۔ ان کا مرتبہ اس سے بلند تر ہے کہ ان کی ثقاہت کے لیے کسی کی سند لائی جائے۔ ان سے اس کو روایت کرنے والے ابو فاختہ سعید بن علاقہ ہیں جنہیں حافظ ابن حجرؒ نے تقریب میں ثقہ قرار دیا ہے۔ ان سے عون بن عبداللہؓ اس کے راوی ہیں جن کی ثقاہت پر امام احمد، یحییٰ بن معین، عجلی اور نسائی نے شہادت دی ہے۔ ان سے روایت کرنے والے المسعودی عبدالرحمٰن بن عبداللہ ہیں، اور یہی وہ راوی ہیں جن کو مخبوط الحواس قرار دے کر یہ روایت ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ٹھہرائی جاتی ہے۔ حالانکہ علمائے رجال نے تصریح کی ہے کہ وہ ثقہ تھے اور صرف آخر عمر میں ان کا ذہن الجھ گیا تھا۔ امام احمد اور ابن عمار کہتے ہیں ہیں کہ کوفے اور بصرے میں جو روایات لوگوں نے ان سے سنی ہیں وہ سب صحیح ہیں، البتہ بغداد جا کر ان کا ذہن پراگندہ ہوگیا تھا۔ ابن ابی حاتم اپنے والد ماجد ابو حاتم کا قول نقل کرتے ہیں کہ اپنی موت سے سال یا دو سال پہلے ان کے ذہن کی یہ حالت ہوئی تھی۔ ابن معین کہتے ہیں کہ قاسم اور عون بن عبداللہ سے جو احادیث انہوں نے روایت کی ہیں وہ صحیح ہیں۔ ابن عینیہ کہتے ہیں کہ میرے علم میں کوئی شخص حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے علم کو مسعودی سے زیادہ جاننے والا نہ تھا۔ علمائے رجال کی اس شہادت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح بے دردی کے ساتھ ان احادیث کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے جو مفید مطلب نہیں ہوتیں۔
کیا واقعی حضورؐ نے اپنے لیے لفظ ’’سیّد‘‘ کے استعمال کو ممنوع قرار دیا تھا: آپ کا یہ قول قطعاً صحیح نہیں ہے کہ اپنے لیے سیّد کا لفظ استعمال کرنے سے رسول اللہﷺ نے منع فرمادیا تھا۔ یہ احادیث کو نہ سمجھنے اور ان کے موقع و محل کو جانے بغیر ان سے غلط نتائج نکالنے کی ایک واضح مثال ہے۔ اس معاملہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ خوشامد، اور کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنے کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ بخاری اور ابوداؤد میں حضرت ابوبکرؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورؐ کے سامنے ایک اور شخص کی تعریف کی۔ آپ نے تین مرتبہ (اور دوسری روایت میں ہے بار بار ) فرمایا ’’تو نے تو اپنے دوست کا گلا کاٹ دیا‘‘۔ پھر سمجھایا کہ اگر تم میں سے کسی کو اپنے کسی بھائی کی مدح ضرور ہی کرنی ہو اور وہ واقعی اس کے متعلق وہی کچھ جانتا ہو جو وہ کہنا چاہتا ہے تو یوں کہے کہ ’’میں اسے ایسا سمجھتا ہوں‘‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہے کہ اس کو جاننے والا تو اصل میں اللہ ہے اور میں اللہ پر اس کا تزکیہ لازم کرنے والا نہیں ہوں۔
یہ بات نگاہ میں رکھیے اور پھر اس روایت کو دیکھیے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ حضورؐ نے اپنے لیے لفظ ’’سیّد‘‘ کے استعمال سے منع فرمادیا تھا۔ مسند احمد میں حضرت انسؓ بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا یا محمد (ﷺ) یا سیدنا وابن سیدنا، وخیرنا وابن خیرنا۔اے محمد (ﷺ)، اے ہمارے سردار کے بیٹے، ہمارے بہترین شخص اور ہمارے بہترین شخص کے بیٹے‘‘۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا’’ لوگو، اپنے تقویٰ پر قائم رہو، شیطان تمہیں غلط راستے پر نہ ڈالنے پائے، میں محمد بن عبداللہ ہوں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں، میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اس منزلت سے اوپر اٹھانے کی کوشش کرو جو اللہ عزوجل نے مجھے عطا کی ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ روایت بھی ملاحظہ فرمالیجیے جس کی بنا پر آپ لفظ سیّد کے استعمال سے منع کردینے کی تاریخ ۹ھ متعین فرمارہے ہیں۔ مسند احمد میں تین جگہ اور ابو داؤد و کتاب الادب میں ایک جگہ یہ ذکر ہے کہ بنی عامر کا وفد حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وفد میں مطرِّف بن عبداللہ بن الشخّیر کے والد بھی شریک تھے۔ مطرِّف اپنے والد ہی کے حوالہ سے ان کا یہ بیان روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حاضر ہو کر آپؐ کو سلام کیا اور پھر کہا کہ آپ ہمارے ولی ہیں، آپ ہمارے سید (سردار) ہیں، آپ ہم پر سب سے زیادہ عطا و بخشش کرنے والے اور فضل فرمانے والے اور بڑے عمدہ کھانے کھلانے والے ہیں‘‘ ان کے اس خوشامدانہ انداز کو دیکھ کر حضورؐ نے ان کے الفاظ انت سیدنا کے جواب میں فرمایا السید اللہ تبارک و تعالیٰ۔ اور جب وہ خوشامد کیے ہی چلے گئے تو فرمایا ’’اپنی بات کہو اور شیطان تمہیں اپنے مطلب کے لیے استعمال نہ کرے‘‘۔
اس کلام کو دلیل قرار دے کر یہ کہنا کہ حضورؐ نے اپنے لیے لفظ ’’سید‘‘ کے استعمال کو منع فرمادیا تھا، حدیث دانی اور حدیث فہمی کی کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔ حضورؐ کے الفاظ السید اللہ تبارک و تعالیٰ کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ اللہ کے سوا کسی کے لیے سید استعمال نہیں کیا جاسکتا، تو پھر ان تمام احادیث کو غلط ٹھہرانا پڑے گا جن میں غیر اللہ کے لیے لفظ سید استعمال کیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ اللہ جل شانہ کے اسمائے خاص میں لفظ السید کا اضافہ کرنا پڑے گا، حالانکہ اسمائے الٰہی میں کسی نے بھی اس کو شمار نہیں کیا ہے۔ لیکن اگر اس کا مطلب صرف یہ لیا جائے کہ اور سب کے لیے تو یہ لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے، البتہ حضورؐ کے لیے اس کا استعمال ممنوع ہے تو یہ سراسر بے بنیاد معنی آفرینی ہوگی، کیونکہ جس فقرے کو آپ دلیل بنا رہے ہیں اس سے یہ مفہوم کسی طرح بھی نہیں نکلتا۔ علاوہ بریں یہ بات اس لیے بھی غلط ہے کہ جب خوشامد کے سوا کسی اور انداز میں حضورؐ کے لیے یہ لفظ استعمال کیا گیا تو آپ نے اس سے منع نہ فرمایا۔ چنانچہ مسند احمد میں نَضْلہ بن طریف کی روایت ہے کہ ان کے قبیلے کے ایک شخص عبداللہ کی بیوی ناشزہ ہو کر بھاگ گئی اور اسی قبیلے کے ایک دوسرے شخص مطرِّف بن بَہْصَل کے ہاں جا بیٹھی۔ عبداللہ نے جا کر اس شخص سے اپنی بیوی کا مطالبہ کیا تو اس نے انکار کردیا۔ آخر کار وہ فریادی بن کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند اشعار کی صورت میں اپنی شکایت پیش کی۔ ان میں سے پہلا شعر یہ تھا:
یا سیدَ الناس ودَیَانَ العرب
الیک اشکو ذربۃ من الذرب
’’اے لوگوں کے سردار اور عرب کے فرمانروا، آپ کے پاس میں بڑی زبان دراز عورتوں میں سے ایک کی شکایت پیش کرتا ہوں‘‘۔
یہ چونکہ فریادی کی فریاد تھی نہ کہ کسی خوشامدی کی خوشامد، اس لیے ان الفاظ پر حضورؐ نے کوئی اعتراض نہ فرمایا، بلکہ فوراً مطرِّف کے نام فرمان لکھا کہ اس شخص کی بیوی اس کے حوالے کردو۔
بے سند اور غیر متعلق روایات سے استدلال
قاضی عیاض کی شفا سے آپ نے جو روایت نقل کی ہے، اس کا کوئی حوالہ انہوں نے نہیں دیا ہے اور نہ اس روایت کی سند بیان کی ہے۔ عجیب بات ہے کہ مفید مطلب روایت تو بلا سند و جواز حوالہ قبول، اور خلاف مطلب روایت اگر صحاح ستہ میں سے ایک کے اندر پوری متصل سند کے ساتھ درج ہو تو اس کے ایک راوی پر بلا تحقیق تہمتیں جوڑ کر پوری حدیث ردّ۔ رہی آپ کی نقل کردہ وہ روایت جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتے کا سوال، اور حضرت جبریل ؑ کے مشورے پر حضورؐ کا جواب نقل کیا گیا ہے تو وہ اس بحث میں سرے سے غیر متعلق ہے۔
حضورؐ کے ارشاد پر حضرت عمرؓ کا اعتراض
آپ نے اس مشہور واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ جب بنی قریظہ کے معاملہ میں حَکَمَ کی حیثیت سے فیصلہ دینے کے لیے حضرت سعدؓ بن معاذ بلائے گئے تھے تو حضورؐ نے حاضرین کو، یا انصار کو حکم دیا تھا کہ قُوْمُوْا الیٰ سَیّدِکُمْ۔ لیکن بخاری، مسلم، ابوداؤد، مسند احمد، اور مغازی و سیرت کی کتابوں میں اس واقعے کی تمام دوسری روایات چھوڑ کر آپ کی نگاہ صرف مسند احمد کی اس ایک روایت پر جا کر ٹھہری جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضورؐ کے یہ ارشاد فرماتے ہی کہ قُوْمُوْا الیٰ سیّدکم (اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ)۔ حضرت عمرؓ بھری مجلس میں بول اٹھے کہ سیدنا اللہ عزوجل (ہمارا سردار تو اللہ عزو جل ہے)۔ تھوڑی دیر کے لیے اس بات سے قطع نظر کرلیجیے کہ دوسری روایتیں اس ذکر سے خالی ہیں، آپ کی سمجھ میں یہ بات آکیسے گئی کہ حضرت عمرؓ رسول اللہﷺ کے مقابلے میں یہ گستاخی کرسکتے تھے؟ اور وہ حضرت عمرؓ یہ بات کیسے کہہ سکتے تھے جن کا اپنا قول ترمذی میں حضرت عائشہؓ سے ان الفاظ میں نقل ہوا ہے کہ ابوبکر سیّدُنا و خیرنا واَحَبُّنا الیٰ رسول اللہﷺ (ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں، ہمارے بہترین آدمی ہیں، ہم سب سے بڑھ کر رسول اللہﷺ کو محبوب ہیں)۔ اور جن کا ایک دوسرا قول بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہؓ سے یوں منقول ہوا ہے کہ ابو بکر سیدنا وَاَعْتَقَ سیّدنا، یعنی بلالاً (ابوبکرؓ ہمارے سرادار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار، یعنی بلالؓ کو آزاد کیا ہے)۔
کیا حضورؐ کے لیے دعا میں سیدنا کہنا روح دعا کے خلاف ہے؟
آپ فرماتے ہیں کہ د رود میں حضورؐ کے لیے سید کا لفظ استعمال کرنا روح دعا کے خلاف ہے، درخواست اور دعا میں تو عبدیت اور عاجزی اور انکساری کا اظہار ہونا چاہیے اور جس کے حق میں دعا کرنی ہو اس کے لیے تو یوں کہنا چاہیے کہ ایک بندۂ مسکین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے، نہ یہ کہ ہمارا آقا اور سردار حاضر ہو رہا ہے۔ آپ کی یہ بات اس صورت میں تو بلاشبہ درست ہے جبکہ آدمی خود اپنے لیے دعا مانگ رہا ہو۔ مگر کیا یہ اس صورت میں بھی صحیح ہے جبکہ آدمی کی دعا رسول اکرمﷺ کے حق میں ہو؟ کیا آپ حضورؐ کے حق میں دعا مانگتے ہوئے (معاذ اللہ) یوں کہیں گے کہ ’’یا اللہ بے چارے مسکین محمد رسول اللہ ؐ پر اپنی رحمتیں نازل فرما؟‘‘ پھر آپ کی یہ بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے جبکہ مسند احمد، مسند ابوعوانہ، صحیح ابن حبان اور حافظ مروزی کی مسند ابوبکر صدیق ؓ میں بھی صحیح سند کے ساتھ روز قیامت کی شفاعت کے متعلق یہ روایت آئی ہے کہ حضرت حذیفہؓ بن یمان سے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اور ان سے خود رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا کہ اس روز اللہ تعالیٰ آنحضورؐ پر دعا کا ایک ایسا طریقہ کھولے گا جو اس سے پہلے کسی بشر پر کبھی نہیں کھولا گیا۔اور حضورؐ عرض کریں گے ای رَبِّ جَعَلْتَنِی سیّدَ ولد اٰدم ولا فخر و اوّل من تنشقُّ عنہ الارض یوم القیٰمۃ ولافخر،’’اے میرے رب، تو نے مجھے سید اولاد آدم بنایا اور اس پر کوئی فخر نہیں، اور قیامت کے روز پہلا وہ شخص بنایا جس کے نکلنے کے لیے زمین شق ہوئی اور اس پر کوئی فخر نہیں‘‘۔ دیکھیے یہاں خود اللہ تعالیٰ حضورؐ کو دعا کا طریقہ سکھا رہا ہے، اور اس میں سید ولد آدم کے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں۔ کیا یہ روح دعا کے خلاف ہے؟
لفظ سید کی مشروعیت
آپ کے تمام اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب میں عرض کرتا ہوں کہ سید کا لفظ ایک مشروع لفظ ہے جو بکثرت احادیث میں حضورؐ کے لیے بھی اور دوسرے انسانوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔
بخاری، مسلم، مسند احمد، مسند ابوداؤد طیالسی، ترمذی، ابو داؤد، دارمی اور دوسری کتب حدیث میں بکثرت سندوں کے ساتھ حضرات ابن عباسؓ، ابوہریرہؓ، ابو سعید خدریؓ اور انس بن مالکؓ کی روایات آئی ہیں جن میں وہ حضورؐ کے یہ ارشادات نقل کرتے ہیں کہ انا سیّدُ وُلدِ اٰدم یوم القیٰمۃ ولا فخر، یا انا سید الناس یوم القیٰمۃ ولا فخر۔ ان میں سے بعض روایات میں یوم القیٰمۃ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ صرف سید ولد آدم کے الفاظ ہیں۔
مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ اور مسند احمد میں یہ روایات آئی ہیں کہ لعان کے بارے میں جب حکم الٰہی کے نزول سے پہلے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ شوہر اپنی بیوی کو غیر مرد کے سات ملوث دیکھ لے تو کیا کرے، اور اس موقع پر حضرت سعدؓ بن عبادہ نے غیر معمولی غیرت کا اظہار کیا، تو حضورؐ نے انصار کو خطاب کرکے فرمایا اسمعوا الی ما یقول سیدکم۔ ’’سنو تمہارے یہ سردار کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح بخاری، مسلم، نسائی وغیرہ میں حضرت عائشہؓ سے افک کا جو قصہ منقول ہوا ہے اس میں وہ حضرت سعدؓ بن عبادہ کے لیے سید الخزرج کے الفاظ استعمال فرماتی ہیں۔ اور حضرت سعدؓ بن معاذ کے لیے لفظ سید کے استعمال کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
مسند احمد اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب کے لیے سیدالقراء کے الفاظ استعمال فرماتے ہیں۔
مسلم، ابوداؤد اور مسند احمد وغیرہ میں حضورؐ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ غلام اور لونڈیاں اپنے مالک اور مالکہ کو رَبّی اور رَبَّتِیْ نہ کہیں بلکہ سیدی اور سیدتی کہا کریں۔
بخاری، مسلم، ترمذی، مسند احمد وغیرہ میں رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کے لیے سیّدۃ نساءِ ھٰذِہٖ الامۃ، سیّدۃ نساءِ المؤمنین یا نساء المؤمنات، اور سیّدۃ نساءِ اھل الجنۃ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔
بخاری، ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ میں حضرت حسنؓ کے متعلق حضورؐ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ابنی ھٰذا سیّدٌ ولعل اللہ ان یصلح بہٖ بین فئتین من المسلمین (میرا یہ بیٹا سید ہے، اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرادے گا)۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔ دوسری روایتوں میں الفاظ کچھ کچھ مختلف ہیں، مگر حضرت حسنؓ کے لیے سید کا لفظ سب میں موجود ہے۔
حضرت حسنؓ و حسینؓ کے لیے سید اشباب اھل الجنۃکے الفاظ ترمذی، ابن ماجہ، نسائی اور مسند احمد بن حنبل میں وارد ہوئے ہیں، اور حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کے لیے سیّداکھُول اھل الجنۃ کے الفاظ مختلف سندوں سے مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ میں منقول ہیں۔
یہ تمام احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدکا لفظ نہ رسول اللہﷺ کے لیے غیر مشروع ہے اور نہ دوسرے انسانوں کے لیے، اور وہ نہ اس دنیا میں غیر مشروع ہے نہ آخرت میں۔ پھر نماز کے اندر یا خارج از نماز حضورؐ پر درود بھیجتے ہوئے اس کے استعمال کو کیسے ناجائز قرار دیا جاسکتا ہے۔
لفظ مولیٰ کی مشروعیت
ایسا ہی معاملہ لفظ مولیٰ کا ہے۔ ابن ماجہ میں یہ روایت آئی ہے کہ کسی حج کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ حضرت معاویہؓ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں حضرت علیؓ کا ذکر برائی کے ساتھ ہورہا تھا۔ اس پر حضرت سعدؓ غضب ناک ہوگئے اور انہوں نے فرمایا تقول ھٰذا الرجلٍ سمعت رسول اللہﷺ یقول من کنتُ مولاہ فعلی مولاہ۔ ’’آپ یہ باتیں اس شخص کے بارے میں کہہ رہے ہیں جس کے متعلق میں نے خود رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ میں جس کا مولیٰ ہوں علیؓ بھی اس کا مولیٰ ہے‘‘۔
مسند احمد اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓحضرت بریدہؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ میں حضرت علیؓ کے ساتھ یمن کی مہم پر گیا اور وہاں مجھے ان سے سخت برتاؤ کا تجربہ ہوا۔ میں نے واپس آکر رسول اللہ ﷺسے اس کی شکایت کی۔ حضورؐ کا چہرہ مبارک میری بات سن کر متغیر ہوگیا اور آپ نے فرمایا ’’اے بریدہ، کیا میں مومنوں کے لیے ان کی جان سے بڑھ کر عزیز نہیں ہوں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیوں نہیں، یا رسول اللہﷺ‘‘۔ حضورؐ نے اس پر فرمایا من کنتُ مولاہ فعلیٌّ مولاہ۔ حافظ ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند عمدہ اور قوی ہے اور اس کے راوی سب کے سب ثقہ ہیں۔
نسائی میں حضرت زیدؓ بن ارقم کی روایت نقل کی گئی ہے جس میں وہ حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم میں رسول اللہﷺ کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، من کنتُ مولاہ فھٰذا وَلیّہ، ’’جس کا میں مولیٰ ہوں یہ بھی اس کا ولی ہے‘‘۔ حافظ ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ امام ذہبیؒ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام احمدؒ نے مسند میں حضرت زیدؓ بن ارقم کی روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے کہ حضورؐ نے وادئ خم میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’کیا تم نہیں جانتے، یا فرمایا کہ کیا تم اس کی شہادت نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کے لیے اس کی جان سے بڑھ کر عزیز ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا ضرور۔ آپﷺ نے فرمایا فمن کنتُ مولاہ فَاِنّ عَلیًّا مولاہ۔ اور دوسری روایت میں ہے فعلیٌّ مولاہ۔ ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ یہ اسناد عمدہ ہے اور اس کے راوی سنن کی شرط کے مطابق ثقہ ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ مولا کا لفظ بھی نبی اور غیر نبی، دونوں کے لیے مشروع نہیں ہے۔ پھر اگر نماز کے اندر اور خارج از نماز، حضورؐ پر درود بھیجتے ہوئے سیدنا و مولانا کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو اس میں آخر گناہ کیا ہے؟ اور کس دلیل سے اس کو ممنوع یا ناجائز یا مکروہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
(ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۵ء)