صلوٰۃِ خوف
سوال:جو افواج پاکستان اپنے پاک وطن کے دفاع کے لیے محاذ پر برسرپیکار ہیں، ان کے بارے میں نماز فرض کا کیا حکم ہے؟ موجودہ حالات میں فرض نماز کے ادا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب: اگر عملاً لڑائی نہ ہو رہی ہو، بلکہ فوجی دستہ محاذ جنگ کی کسی چوکی پر صرف مدافعت کے لیے مستعد بیٹھا ہو تو ایسی حالت میں صلوٰۃ خوف باجماعت اس طرح ادا کی جائے کہ پہلے آدھے سپاہی ایک جگہ جمع ہو کر فرض نماز قصر ادا کریں اور پھر باقی آدھے نماز ادا کرلیں۔ نماز کے وقت سپاہیوں کو اپنے ہتھیار اپنے ساتھ رکھنے چاہئیں۔
اگر دشمن کے حملے کا فوری خطرہ ہو اور کوئی سپاہی اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکتا ہو تو پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو پساہی جس جگہ ہو اور جس حال میں ہو، بیٹھے، کھڑے یا لیٹے ہوئے اشاروں سے، صرف فرض نماز قصر کے ساتھ ادا کرلے۔ اس حالت میں قبلہ رُخ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ اگر قبلہ کی طرف رُخ کرکے نماز نہ پڑھی جاسکتی ہو تو صرف نیت قبلے کی طرف منہ کرکے باندھ لی جائے اور پھر جدھر بھی جنگی ضرورت کے لیے رُخ کرنا پڑے اسی طرف رُخ کرکے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ رکوع و سجدہ نہ ہوسکے تو صرف اشاروں سے ہی نماز پڑھ لی جائے۔ دوران نماز میں اگر دشمن حملہ کردے تو اسی حالت میں فائر کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر اپنی جگہ سے حرکت کرنا اور ساتھیوں سے بات کرنا ضروری ہو تو پھر نماز توڑدیں اور اس کی قضا بعد میں جب موقع ہو ادا کرلیں۔
اگر عملاً معرکۂ کا ر زار گرم ہوجائے اور نماز پڑھنے کا بالکل موقع ہی نہ مل رہا ہو تو پھر نماز قضا کی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں جتنی نمازیں بھی قضا ہوں انہیں معرکہ ختم ہونے کے بعد ادا کرلیا جائے۔
(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۶۵ء)