مسئلہ عصمت انبیاء
سوال: آپ نے تفہیمات حصہ دوم میں قصہ داؤد علیہ السلام پر کلام کرتے ہوئے عصمت انبیاء کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی بنا پر علماء کا ایک گروہ مدتوں سے آپ کو عصمت انبیاء کا منکر قرار دے رہا ہے۔ اب مولانا مفتی محمد یوسف صاحب نے اپنی تازہ کتاب میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرکے ان کے تمام اعتراضات کو رد کردیا ہے۔ مگر اس کتاب کی اشاعت کے بعد ایک دینی مدرسے کے شیخ الحدیث صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پھر اس الزام کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’ (ان عبارات میں) ایسی توجیہات اور محتملات بھی موجود ہیں جن کی بنا پر مولانا مودودی صاحب ایک صحیح مسلمان اور سچے عاشق و محبت رسول کی نگاہ میں گستاخی کا مرتکب اور مذہبی پابندی سے آزاد نظر آئے گا‘‘۔
اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’ یہ ضروری ہے کہ مولانا مودودی صاحب کی اس عبارت کی توجیہ اس طرح کی جائے کہ مراد عصمت و حفاظت سے عصمت عن الکفر و الکذب وسائر الکبائر والصغائر الخسیسہ لیا جائے اور لفظ لغزش سے اعم لیا جائے خواہ لغزش باعتبار کفر یا باعتبار کذب یا باعتبار باقی کبائر و صغائر خسیسہ ہو‘‘۔
پھر نتیجہ نکالتے ہیں:
’’حفاظت اٹھانے کے بعد اب جو فعل صادر ہوگا تو وہی ہوگا جو حفاظت کی صورت میں ممکن الوقوع نہ تھا تو نتیجہ اس توجیہ کی بنا پر یہی نکلے گا کہ مولانا صاحب کے نزدیک آدم علیہ السلام سے لے کر جناب سیّد الانبیاء و المرسلین تک جس قدر انبیاء گزرے ہیں۔ بشمول رسول کریمﷺ ہر نبی سے کسی نہ کسی وقت اللہ تعالیٰ نے بالارادہ اپنی حفاظت اٹھا کر ایک دو گناہ کبیر سرزد ہونے دیے ہیں اور جس سے کسی نہ کسی وقت کبیرہ سرزد ہوجائے، خواہ ایک گناہ ہو یا دو ہو یا دو سو ہو، وہ معصوم نہیں اور بوقت گناہ وہ موصوف بصفت نبوت بھی نہ ہوگا کیونکہ نبوت کے ساتھ عصمت عن الکبائر لازم ہے‘‘۔
ان توجیہات و احتمالات کا جواب اگر آپ خود سے دیں تو امید ہے کہ معترضین کی حجت قطع ہوجائے گی۔
جواب: اس مسئلے کی وضاحت یہ ہے کہ میری جس عبارت کے ایک فقرے کو لے کر معترضین نے مجھے عصمت انبیاء کا منکر قرار دے ڈالا وہ کسی ایسے مضمون کا حصہ نہیں تھا جس میں عصمت انبیاء کے مسئلے پر کوئی عام اصولی بحث کی گئی ہو، بلکہ وہ سورۂ ص ٓ کی ان آیات پر جو قصہ داؤد علیہ السلام کے بارے میں آئی ہیں۔ کلام کرتے ہوئے ایک ضمنی بحث کے طور پر لکھا گیا تھا۔ اس میں دفع دخل مقدر کے طور پر جو بات میں نے کہی ہے وہ دراصل ایک اہم سوال کا جواب ہے۔ وہ سوال اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر انبیاء علیہم السلام سے بعض ایسے افعال کے صدور کا ذکر کیا گیا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا۔ مثلاً حضرت آدم ؑ کے متعلق یہ ارشاد کہ وَعَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی۔ اور حضرت نوح ؑ کے متعلق یہ کہ اِنِّیْ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ۔ اور حضرت داؤد کے متعلق یہ کہ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ۔ اور حضرت یونس ؑ کے متعلق یہ کہ اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ الآیہ، اور وَلَاتَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ الآیہ۔ اسی طرح خود ہمارے نبی ﷺ کے متعلق یہ ارشاد کہ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لََہٗ اَسْریٰ، اور عَفَا اللہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ، اور لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ، اور عَبَسَ وَتَوَلّٰی اَنْ جَآءَ ہُ الْاَعْمٰی۔ ان تمام مقامات پر قرآن کے الفاظ اور انداز بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نبی سے کوئی ایسا کام ہوا ہے جو اللہ کو پسند نہیں ہے۔ اور اس پر اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے نبی کو متنبہ کرکے اس کی اصلاح کی جارہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عصمت انبیاء کے ساتھ یہ چیز کیسے مطابقت رکھتی ہے؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم نہ تھا کہ نبی سے فلاں فعل صادر ہونے والا ہے، اور بعد میں جب وہ صادر ہوگیا تو اللہ کے علم میں وہ بات آئی اور اس نے نبی کو متنبہ فرمایا؟ اگر معاذ اللہ یہ مان لیا جائے تو اعتراض نبوت سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی صفت علم پر وار ہوجاتا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ صدور سے پہلے اللہ کو اس کا علم تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے ہی کیوں نہ روک دیا؟ آخر اس میں مصلحت کیا تھی کہ پہلے تو اسے صادر ہوجانے دیا گیا اور بعد میں اس پر نہ صرف یہ کہ ٹوک کر اس کی اصلاح کی گئی بلکہ اس ٹوکنے کا ذکر بھی اس کتاب میں کردیا گیا جسے قیامت تک مومن و کافر سب کو پڑھنا تھا؟
یہی سوال ہے جس کو ان مواقع پر ابھرتے ہوئے فرض کرکے میں نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے:
’’عصمت دراصل انبیاء کے لوازم ذات میں سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصبِ نبوت کی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے کے لیے مصلحۃً خطاؤں اور لغزشوں سے محفوظ فرمایا ہے۔ ورنہ اگر اللہ کی حفاظت تھوڑی دیر کے لیے بھی ان سے منفک ہوجائے تو جس طرح عام انسانوں سے بھول چوک اور غلطی ہوتی ہے اسی طرح انبیاء سے بھی ہوسکتی ہے۔ اور یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ اللہ نے بالارادہ ہر نبی سے کسی نہ کسی وقت اپنی حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں سرزد ہوجانے دی ہیں تاکہ لوگ انبیاء کو خدا نہ سمجھ لیں اور جان لیں کہ یہ بشر ہیں خدا نہیں ہیں‘‘۔
اب دیکھیے، پورے مضمون کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ یہاں عصمت انبیاء کے مسئلے پر کوئی عام بحث نہیں کی جارہی ہے جس میں زیر بحث یہ سوال ہوکہ انبیاء سے کس قسم کی غلطیاں صادر ہونی ممکن ہیں اور کونسی ممکن نہیں ہیں۔ بلکہ زیر بحث صرف وہ لغزشیں ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، اور ان کے بارے میں بھی کلام صرف اس پہلو سے کیا گیا ہے کہ عصمت کے باوجود ان لغزشوں کا صدور ممکن کیسے ہوا؟ اور ان کے صدور سے پہلے انہیں کیوں نہ روک دیا گیا؟ اور صدور کے بعد ان پر خاموشی سے تنبیہ کردینے پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا ؟ اور ان کا ذکر قرآن مجید میں کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟
لیکن معترضین نے پہلا ظلم تو یہ کیا ہے اسے عصمت انبیاء کے مسئلے پر ایک عام بحث قرار دے لیا۔ حالانکہ وہ خاص بحث تھی جو ایک دوسری بحث کے ضمن میں آگئی تھی۔ پھر انہوں نے دوسرا ظلم یہ کیا کہ صدور لغزش کے امکان کو ہر قسم کے معاصی اور کبائر حتیٰ کہ کفر تک کے صدور تک وسیع کردیا، حالانکہ میرے کلام میں زیر بحث صرف وہ لغزشیں تھیں جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ظلم انہوں نے یہ کیا کہ عصمت کے ارتفاع کو کلی ارتفاع فرض کرکے یہ احتمال پیدا کرڈالے کہ جب عصمت مرتفع ہی ہوگئی تو پھر کفر و کذب اور تمام کبائر و صغائر سر زد ہوسکتے تھے۔ حالانکہ ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ میری عبارت میں کسی خاص موقع پر کسی خاص لغزش کے صدور کی حد تک حفاظت اٹھائے جانے کا ذکر ہے نہ کہ کُلّی طور پر عصمت کے اٹھا لیے جانے کا۔ جن حضرات کی عمریں منطق و فلسفہ کے سبق پڑھاتے ہوئے گزری ہیں ان کے بارے میں یہ ماننا میرے لیے سخت مشکل ہے کہ وہ عصمت کے کلی ارتفاع اور جزئی ارتفاع میں کوئی فرق محسوس نہ کرسکتے ہوں گے۔ اس لیے میں یہ گمان کرنے میں حق بجانب ہوں کہ یہ کرتب جان بوجھ کر دکھایا گیا ہے تاکہ مجھے کسی نہ کسی طرح عصمت انبیاء کا منکر قرار دیا جاسکے۔ اور اب میری اس توضیح کے بعد بھی کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ حضرت اپنی تقریروں اور تحریروں میں اسی الزام کو اسی طرح دہراتے چلے جائیں جس طرح سالہا سال سے دہراتے چلے آرہے ہیں۔ اصل معاملہ کسی علمی اختلاف کا نہیں بلکہ بغض کا ہے جس کے ساتھ خدا ترسی مشکل ہی سے کبھی جمع ہوسکتی ہے۔ میرا بارہا کا تجربہ ہے کہ جن الزامات کا میں مفصل جواب دے کر ان حضرات کی حجت قطع کرچکا ہوں، ان کو یہ اسی طرح دہراتے رہے ہیں گویا انہیں سرے سے کوئی جواب دیا ہی نہیں گیا۔
آپ چاہیں تو ان شیخ الحدیث صاحب سے یہ دریافت کرلیجیے کہ قرآن مجید کی جن آیات کے متعلق میں نے یہ عبارت لکھی ہے، ان پر وہ سوالات پیدا ہوتے ہیں یا نہیں جن کا جواب میں نے اس عبارت میں دیا ہے؟ اور اگر وہ سوالات پیدا ہوتے ہیں تو ان کا وہ خود کیا جواب دیں گے؟ میرا جواب کسی صاحب علم کے نزدیک غلط ہو تو اسے چاہیے کہ اس کے خیال میں جو صحیح جواب ہو اسے بیان کردے۔
(ترجمان القرآن، فروری ۱۹۶۸ء)