معراج کے موقع پر حضورﷺ کو کیا تعلیمات دی گئی تھیں؟
سوال:واقعہ اسراء و معراج کے متعلق جناب کے حالیہ مضمون کو پڑھ کر ذہن میں مندرجہ ذیل خیالات پیدا ہوئے ہیں۔امید ہے کہ جناب اس سلسلے میں مناسب رہنمائی فرمائیں گے۔
جناب نے اس واقعہ کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مقصد آنحضرتؐ کو کائنات کے باطنی نظام کا ادراک حاصل کرنے کے لیے ان نشانیوں کا مشاہدہ کرانا مقصود تھا جنہیں قرآن حکیم اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی کہتا ہے، اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ آنحضرتؐ کو اپنی بارگاہ میں طلب کرکے اسلامی معاشرہ کے قیام کے بارے میں چند بنیادی ہدایات دینا چاہتا تھا۔
بلاشبہ قرآن حکیم سے معراج کے یہ دونوں مقاصد ثابت ہیں۔ مگر قابل غور بات یہ بھی کہ اگر پہلا مقصد آنحضرتؐ کو عظیم نشانیاں دکھانا ہی تھا تو یہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچنے تک حاصل ہوچکا تھا۔ حضورؐ دوسرے ملائکہ کے علاوہ حضرت جبرائیل امینؑ کو دوبارہ ان کی اصل صورت میں ملاحظہ کرچکے تھے، انبیائے کرام سے تعارف ہوگیا تھا، جزا و سزا کی کئی صورتیں دکھائی جا چکی تھیں، بیت المعمور، جنت الماویٰ اور دوزخ جیسے مقامات کا مشاہدہ بھی مکمل ہوچکا تھا۔ لہٰذا اس غرض کے لیے اب عالم شہادت کی سرحد کو عبور کرکے عالم غیب میں قدم آگے بڑھانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ جہاں تک دوسرے مقصد کا تعلق ہے وہ بارگاہ جلال میں حاضر ہوئے بغیر بھی پورا ہوسکتا تھا۔ جب سارا قرآن سر زمین عرب ہی میں آنحضرتؐ پر نازل ہوسکتا تھا تو ان ہدایات کے نازل ہونے میں کیا چیز مانع تھی۔
دراصل ان دونوں مقاصد کے علاوہ معراج النبی کا ایک تیسرا مقصد بھی قرآن و حدیث ہی سے ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرتؐ کو مقام قرب کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا کر ان مخصوص اذواق و مواجید اور اسرارو رموز کی تعلیم دینا چاہتا تھا جو الفاظ میں نہیں بیان کیے جاسکتے۔ فَاَوْحیٰ اِلیٰ عَبْدِہٖ مَآ اَوْحیٰ کے الفاظ اسی مقصد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جو کچھ وحی کیا گیا اسے الفاظ میں کیوں نہیں بیان کیا گیا؟ ہم اس مخصوص وحی کو وحی غیر متلو کہنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں اور اس میں ان علوم کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو حضرت جبرائیل امینؑ کی دسترس سے باہر ہیں۔ اسی تعلیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی صاحب دل نے کہا تھا :
سِرّ ما اَوحیٰ نہ گنجد در ضمیرِ جبرئیل
کشفِ اسرارِ لدُّنی کے کندامُّ الکتاب
یہ ظاہر ہے کہ وحیِ جَلی اور اس مخصوص وحی کی تعلیم میں نہ تو کوئی تضاد ہوسکتا ہے اور نہ وحیِ جَلی پر وحی خفی کو ترجیح دینے کا سوال پیدا ہوتا ہے، یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آنحضرت ؐ کے ان مخصوص اذواق اور احوال کی توفیق جزوی طور پر آنحضرتؐ کے بعض امتیوں کو نصیب کردیتا ہے تو اس میں تعجب کی کونسی بات ہے۔ سخی اگر سخاوت نہ کرے تو وہ سخی نہیں کہلاسکتا۔ حضرت ابوبکرؓ کے سینے میں ایک راز الٰہی کا راسخ ہوجانا اور اسی کی بنا پر آپ کا دیگر اصحاب رسول پر فضیلت حاصل کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ جس چیز کو اللہ کے رسول نے ’’راز‘‘ قرار دیا ہو اسے وہ کسی اور شے پر محمول کرے۔
جہاں تک معراج کے موقع پر دیدار ِ الٰہی کے مسئلے کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ لوگ اس بارے میں فضول بحثوں میں الجھ گئے ہیں۔ جب یہ ثابت ہے کہ عالم آخرت میں مومنین دیدارِ الٰہی کریں گے تو عالم غیب میں آنحضرتؐ کے دیدار الٰہی سے مشرف ہونے میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حضرت عائشہؓ لاتدرک الْابصار کے الفاظ سے بچشم سر دیدار الٰہی کی نفی فرما رہی ہیں جس کا تعلق عالم شہادت سے ہے نہ کہ عالم غیب یا عالم آخرت سے۔ جناب خود بھی تفہیم القرآن میں وضاحت فرما چکے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ دیدار کا فعل آنکھ نامی ایک آلے ہی سے ہو۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے قلب یا قلب کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے بھی دیدار کی صورت پیدا کردینے پر قادر ہے۔
ایں خاک بے ادب رانسبت باوچہ باشد
اماچو او نوازد کس رازباں نہ باشد
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سدرۃ المنتہیٰ سے آگے بلا کر حضورؐ کو انتہائی تقرب عطا فرمایا تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ وہاں حضورؐ کو ایسے اسرار کی تعلیم دی گئی جو امت سے مخفی رکھنے کے لیے تھی۔ سورہ تکویر میں صاف فرمایا گیا ہے کہ وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ۔ ’’اور وہ (ہمارا رسول) غیب پر بخیل نہیں ہے‘‘۔ یعنی جو غیب کے علوم اس کو دیے گئے ہیں وہ انہیں چھپا کر رکھنے والا اور انہیں اپنے تک محدود رکھ کر بخل کرنے والا نہیں ہے۔ یہی بات سورہ جن کی آخری دو آیتوں میں فرمائی گئی ہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ رسول پر اپنے غیب کا جو علم ظاہر فرماتا ہے وہ تبلیغ رسالت کے لیے ہوتا ہے۔ اور یہی بات سورہ مائدہ کی آیت ۶۷ میں ارشاد ہوئی ہے کہ اے رسول، جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی خاص تعلیم مخفی طور پر حضورؐ نے آپ کو دی تھی؟ انہوں نے برسر منبر اس کا انکار فرمایا اور اپنی تلوار کے نیام میں سے چند شرعی احکام نکال کر لوگوں کو بتائے جو انہوں نے حضورؐ سے سن کر لکھ لیے تھے۔
وحی متلو کے علاوہ اگر اس موقع پرکوئی تعلیم حضورؐ کو وحی غیر متلو کے طور پر دی گئی ہوگی تو لازماً وہ اسلامی نظام کو نافذ کرنے اور دین حق کو قائم کرنے کی حکمت ہی ہوسکتی تھی، جس کے اظہار کا موقع عنقریب ہجرت کے بعد حضورؐ کو ملنے والا تھا۔ یہ حکمت حضورؐ کے اس پورے کارنامے میں بھی ظاہر ہوگئی جو مدینہ طیّبہ کی دس سالہ زندگی میں آپ نے انجام دیا۔ اوریہ ان احکام امرونہی، ان مواعظ و نصائح اور ان قولی و عملی ہدایات میں بھی ظاہر ہوئی جن سے آپ ؐ نے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی۔ ایسے اسرارو رموز اور اذواق و مواجید کا کوئی ثبوت ہمیں سنت میں نہیں ملتا جن کی تلقین امن سے مخفی رکھ کر کسی خاص شخص یا مخصوص اشخاص کو فرمائی گئی ہو۔
جہاں تک دیدارِ الہٰی کا تعلق ہے اس کے بارے میں سوال بچشمِ سر دیکھنے کا تھا، اور معتبر احادیث کی رو سے حضورؐ نے اسی کا انکار فرمایا تھا۔
(ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۷۷ء)