قرآن کی آیات سے قادیانیوں کا غلط استدلال
سوال: میں نے آپ کی بہت سے تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن مرزائی جس آیت سے استدلال کرتے ہیں اس پر آپ کا کوئی تبصرہ نہیں دیکھا۔ یہ سورۂ اعراف کی آیت ۳۵ ہے: يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ۔ یہاں رسول اللہﷺ پر نازل شدہ قرآن میں بنی آدم کو خطاب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ میں تم میں سے رسول آئیں گے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے حضورؐ کے بعد انبیا کی آمد کا راستہ کھلا ہے۔ قادیانیوں کے استدلال کا کیا جواب ہے؟ اسی طرح وہ سورۂ مومنون کی آیت 51 اور اور حدیث لو عاش ابراہیم لکان نبیاً سے بھی دلیل لاتے ہیں۔ ان کے جواب میں کیا کہا جاسکتا ہے؟
جواب: سورۂ اعراف کی آیت 35 کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کرکے جو نتیجہ نکالا جاتا ہے اول تو وہ اس نتیجے کے بالکل برعکس ہے جو سلسلہ کلام میں اسے رکھ کر دیکھنے سے نکلتا ہے پھر اس مضمون کو جو دوسری آیات قرآن مجید میں ہیں وہ بھی قادیانیوں کی تفسیر سے مختلف ہیں۔ مزید برآں قادیانیوں سے پہلے گذشتہ تیرہ برسوں میں کسی نے بھی مذکورہ بالا آیت کا یہ مطلب نہیں لیا ہے کہ نبیﷺ کے بعد سلسلہ نبوت جاری رہنے کا ذکر اس آیت میں کیا گیاہے۔ میں ان تینوں نکات کی الگ الگ تشریح کیے دیتا ہوں تاکہ قادیانی استدلال سے دھوکہ کھانے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
۱۔ سورۂ اعراف میں یہ آیت دراصل قصہ آدم و حوا کے سلسلے میں آئی ہے جو رکوع دوم کے آغاز سے رکوع چہارم کے وسط تک مسلسل بیان ہوا ہے۔ پہلے رکوع دوم میں پورا قصہ بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد رکوع سوم و چہارم میں ان نتائج پر تبصرہ کیا گیا ہے جو اس قصے سے نکلتے ہیں۔ اس سیاق و سباق کو ذہن میں رکھ کر آپ آیت ۳۵ کو پڑھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’’یا بنی آدم‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کرکے جو بات کہی گئی ہے اس کا تعلق آغاز آفرینش کے وقت سے ہے نہ کہ نزول قرآن کے وقت سے بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ آغاز آفرینش ہی میں اولاد آدم کو اس بات پر متنبہ کردیا گیا تھا کہ تمہاری نجات اس ہدایت کی پیروی پر موقوف ہے جو خدا کی طرف سے بھیجنے جانے والے انبیاء کے ذریعہ سے آئے۔
۲۔ اس مضمون کی آیات قرآن مجید میں تین مقامات پر آئی ہیں، اور تینوں مقامات پر قصہ آدم و حوا کے سلسلے ہی میں اس کو وارد کیا گیا ہے۔ پہلی آیت سورۂ بقرہ میں ہے (آیت ۳۸) دوسری آیت سورۂ اعراف میں ہے (آیت ۳۵) تیسری آیت سورۂ طٰحہٰ میں ہے (آیت ۱۲۳)۔ ان تینوں آیتوں کا مضمون بھی باہم مشابہ ہے اور موقع و محل بھی مشابہ۔
۳۔ مفسرین قرآن دوسری آیتوں کی طرح سورۂ اعراف کی اس آیت کو بھی قصہ آدم و حوا ہی سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے متعلق ابو سیّار السّلمی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت آدم ؑ اور ان کی ذرّیت کو یکجا اور ایک ہی وقت میں خطاب کیا ہے‘‘۔ امام رازی اپنی تفسیر کبیر میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر خطاب نبی ﷺ کی طرف ہو، حالانکہ وہ خاتم الانبیاء ہیں، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ یہاں امتوں کے بارے میں اپنی سنت بیان فرما رہا ہے۔‘‘ علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ ’’یہاں ہر قوم کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے اسے حکایۃً بیان کیا جارہا ہے۔ یہی بنی آدم سے نبیﷺ کی امت مراد لینا مستبعد اور ظاہر کے خلاف ہے۔ کیونکہ یہاں جمع کا لفظ ’’رسل‘‘ استعمال ہوا ہے‘‘۔ علامہ آلوسی کے ارشاد کے آخری حصے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں خطاب امت محمدیہ سے ہو تو پھر اس امت کو یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ’’اگر کبھی تم میں سے رسول آئیں‘‘ کیونکہ اس امت میں ایک سے زائد رسولوں کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آیت يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (المئومنون : ۵۱) کو بھی اگر اس کے سیاق و سباق سے الگ نہ کیا جائے تو اس سے وہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا جو قادیانی حضرات نے نکالا ہے۔ یہ آیت جس سلسلئہ کلام میں وارد ہوئی ہے وہ رکوع دوم سے مسلسل چلا آرہا ہے۔ اس میں حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ بن مریمؑ تک مختلف زمانوں کے انبیاء اور ان کی قوموں کا ذکر کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں انبیاء علیہم السلام ایک ہی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ ایک ہی ان سب کا طریقہ رہا ہے اور ایک ہی طرح سے ان سب پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہوتا رہا ہے۔ اس کے برعکس گمراہ قومیں ہمیشہ خدا کے رستے کو چھوڑ کر غلط کاری میں مبتلا رہی ہیں۔ اس سلسلئہ بیان میں یہ آیت اس معنی میں نہیں آئی کہ ’’اے رسولو، جو محمدﷺ کے بعد آنے والے ہو، پاک رزق کھاؤ اور نیک عمل کرو‘‘۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام رسولوں کو، جو نوح علیہ السلام کے وقت سے اب تک آئے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہی ہدایت فرمائی تھی کہ ’’پاک رزق کھاؤ اور نیک عمل کرو‘‘۔
اس آیت سے بھی مفسرین قرآن نے کبھی یہ مطلب نہیں لیا کہ یہ محمد ﷺ کے بعد انبیاء کی آمد کا دروازہ کھولتی ہے۔ اگر کوئی مزید تحقیق و اطمینان کرنا چاہے تو مختلف تفسیروں میں اس مقام کو دیکھ سکتا ہے۔
حدیث لَوْعَاشَ اِبْرَاھِیْمُ لَکَانَ نَبِیًّا سے قادیانی حضرات جو استدلال کرتے ہیں وہ چار وجوہ سے غلط ہے۔
اول یہ کہ جس روایت میں اسے خود نبیﷺ کے قول کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے اس کی سند ضعیف ہے اور محدثین میں سے کسی نے بھی اس کو قوی تسلیم نہیں کیا ہے۔
دوم یہ کہ نووی اور ابن عبدالبر جیسے اکابرمحدثین اس مضمون کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں۔ امام نووی اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں لکھتے ہیں:
اما ماوری عن بعض المتقدمین لو عاش ابراھیم لکان نبیاً فباطل و جسارۃ علی الکلام علی المغیبات و مجازفۃ وھجوم علیٰ عظیمٍ۔
’’رہی وہ بات جو بعض متقدمین سے منقول ہے کہ ’’اگر ابراہیم زندہ ہوتے تو نبی ہوتے‘‘۔ تو وہ باطل ہے اور غیب کی باتوں پر کلام کرنے کی بے جا جسارت ہے اور بے سوچے سمجھے ایک بڑی بات منہ سے نکال دینا ہے‘‘۔
اور علامہ ابن عبدالبر ’’تمہید‘‘ میں لکھتے ہیں:
لا ادری ما ھذا فقد ولد نوح علیہ السلام غیر نبی ولولم یلد النبی الانبیاء لکان کل احد نبیا لانھم من نوح علیہ السلام۔
’’میں نہیں جانتا کہ یہ مضمون کیا ہے۔ نوح علیہ السلام کے ہاں غیر نبی اولاد ہو چکی ہے۔ حالانکہ اگر نبی کا بیٹا نبی ہونا ضروری ہوتا تو آج سب نبی ہوتے۔ کیونکہ سب کے سب نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں‘‘۔
سوم یہ کہ اکثر روایات میں اسے نبیﷺ کے بجائے بعض صحابیوں کے قول کی حیثیت سے نقل کیا گیا ہے اور وہ اس کے ساتھ یہ تصریح بھی کردیتے ہیں کہ نبیﷺ کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے صاحبزادے کو اٹھالیا۔ مثال کے طور پر بخاری کی روایت یہ ہے:
عن اسمٰعیل بن ابی خالد قال قلتُ لعبد اللہ بن ابی اوفیٰ رأیت ابراھیم بن النبی ﷺ ؟ قال مات صغیراً ولو قضی ان یکون بعد محمدﷺ نبی عاش ابنہ ولٰکن لا نبی بعدہ (بخاری، کتاب الادب، باب من سمی باسماء الانبیاء)
’’اسمٰعیل بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہؓ بن ابی اوفیٰ (صحابی) سے پوچھا کہ آپ نے نبی ﷺ کے صاحبزادے کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا وہ بچپن ہی میں مر گئے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوتا کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو تو آپؐ کا صاحبزادہ زندہ رہتا، مگر حضورﷺ کے بعد کوئی اور نبی نہیں ہے‘‘۔
اسی سے ملتی جلتی روایت حضرت انسؓ سے بھی منقول ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
ولو بقی لکان نبیّا لکن لم یبق لان نبیکم آخر الانبیاء (تفسیر روح المعانی، جلد ۲۲۔ صفحہ ۳)
’’اگر وہ زندہ رہ جاتے تو نبی ہوتے، مگر وہ زندہ نہ رہے کیونکہ تمہارے نبی آخری نبی ہیں‘‘۔
چہارم یہ کہ اگر بالفرض صحابہ کرامؓ کی یہ تصریحات بھی نہ ہوتیں، اور محدثین کے وہ اقوال بھی موجود نہ ہوتے جن میں اس روایت کو جو نبیﷺ کے قول کی حیثیت سے منقول ہوئی ہے، ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دیا گیا ہے، تب بھی وہ کسی طرح قابل قبول نہ ہوتی، کیونکہ یہ بات علم حدیث کے مسلمہ اصولوں میں سے ہے کہ اگر روایت سے کوئی ایسا مضمون نکلتا ہو جو بکثرت صحیح احادیث کے خلاف پڑتا ہو تو اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اب ایک طرف وہ کثیر التعداد صحیح اور قوی السند احادیث ہیں جن میں صاف صاف تصریح کی گئی ہے کہ نبیﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے، اور دوسری طرف یہ اکیلی روایت ہے جو باب نبوت کے کھلے ہونے کا امکان ظاہر کرتی ہے۔ آخر کس طرح جائز ہے کہ اس ایک روایت کے مقابلے میں ان سب روایتوں کو ساقط کردیا جائے؟
(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۷۶ء)