علوم نفسیات اور چند متفرق مسائل
سوال: مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے اور آپ سے زبانی گفتگو کرنے سے بیحد فائدہ ہوا ہے اور ہمیشہ آپ کے حق میں دعائے خیر کرتا رہتا ہوں۔ میں آج کل امریکہ میں بالخصوص نفسیاتی علوم اور ذہنی عوارض کے فن علاج کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اور آپ کی اسلامی بصیرت سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے سوالات درج ذیل ہیں:
(۱) اسلام میں ’’نفس‘‘ کی کیا تعریف ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت کی تشریح کیا ہوگی؟ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا0 فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا0 قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا … یہ محض ایک حیاتیاتی (بیولا جیکل) محرک ہے یا اس سے زائد کوئی شے ہے۔ آیات کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَنْ کوئی دوسرا وجود ہے جو نفس کو اپنے تحت رکھتا ہے اور اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تقویٰ اور فجور کے الہام کیے جانے سے کیا مراد ہے۔ نفس کو دفن کرنے اور اس کا تزکیہ کرنے کا کیا مطلب ہے۔ نفس امارہ اور نفس لوامہ کی نفسیاتی تعریف کیا ہوسکتی ہے۔ ان آیات و اصطلاحات پر پوری رہنمائی درکار ہے تاکہ ہمیں سوچنے کا مواد فراہم ہوسکے اور وہ اسلام کا ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی مدرسۂ فکر بنانے میں مفید ثابت ہو۔
(۲) نفس(Mind) دماغ(Brain) اور جسم کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ دماخ اور جسم مادے سے مرکب ہیں اور نفس یا دماغ ایک غیر مادی چیز ہے۔
(۳) آپ نے غالباً تفہیم اور بعض دوسرے مقامات پر پہلی وحی کی بہت عمدہ کیفیت بیان کی تھی اور یہ نقشہ کھینچا تھا کہ یہ کوئی داخلی تجربہ(subjective) نہ تھا جس کے لیے پہلے سے کوشش اور تیاری کی گئی ہو بلکہ دفعتاً خارج سے فرشتے اور وحی کا نزول ہوا تھا جو ایک قطعی غیر متوقع تجربہ تھا اور آنحضورﷺ کو اس سے ایک ایسا اضطراب لاحق ہوا تھا جیسا کہ اچانک رونما ہونے والے واقعہ سے ہوتا ہے۔ گیان، دھیان، مراقبہ اور وحی نبوت کے مابین واضح خط امتیاز یہی ہے کہ نبی کا مشاہدہ بالکل ایک خارجی اور معروضی (objective)حقیقت سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس سلسلے میں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ غار حرا میں نبیﷺ کے غورو فکر کی حیثیت کیا تھی؟ معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ بھی داخلی اور قلبی واردات کے اکتساب کی کوشش ہی تھی۔
(۴) مجھ سے ایک نفسیاتی معالج (Psychiatrist)نے سوال کیا کہ نبی پر نزول وحی کیا اسی طرح کی چیز نہیں جیسے کہ ایک سائیکوٹیک مریض کو بعض صورتیں دکھائی دیتی ہیں اور آوازیں سنائی دیتی ہیں (نعوذ باللہ نقلِ کفرکفر نباشد)۔ میں اسے پوری طرح قائل نہ کرسکا اس لیے آپ سے رہنمائی کا طالب ہوں۔
(۵) آپ نے اسلام کا تصور توحید اور اس کی تاریخ یہ بیان کی ہے کہ ابتدا میں انسان وحدتِ الٰہ ہی کا قاتل تھا اور اسے یہی تعلیم دی گئی۔ شرک بعد کی پیداوار ہے مگر تاریخ ادیان کا موجودہ نظریہ اس کے برعکس ہے۔ وحشی اور جنگلی قبائل کے مشرکانہ توہمات سے اس کی تائید فراہم کی جاتی ہے۔ اس استدلال کی تردید کیسے کی جاسکتی ہے؟
(۶) اسلام جرائم کے ارتکاب میں مجرم کو ایک صحیح الدماغ اور صاحب ارادہ فرد قرار دے کر اسے قانوناً و اخلاقاً اپنے فعل کا پوری طرح ذمہ دار قرار دیتا ہے مگر ذہنی و نفسی عوارض کے جدید معالج اور ماہرین جنہیں (Psychiatrist) کہا جاتا ہے وہ سنگین اور گھناؤ نے جرائم کرنے والوں کو بھی ذہنی مریض کہہ دیتے ہیں اور انہیں جرائم کے شعوری و ارادی ارتکاب سے بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ یہ نظریہ اسلامی نقطۂ نظر سے کہاں تک صحیح اور قابلِ تسلیم ہے؟
(۷) کیا انسانوں کے ساتھ جن بھی خلافت ارضی میں شریک ہیں۔ کیا ان کی نفسیات بھی انسانی نفسیات کے مماثل ہیں یہ مشہور ہے کہ فلاں شخص پر جن سوار ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا ابلیس یا شیطان ہر جگہ حاضرو موجود ہے اور ہر انسان تک بیک وقت رسائی رکھتا ہے؟
(۸) گناہ کے دنیوی عواقب اور اخروی نتائج کے ظہور و لزوم سے آپ نے حیات بعد الممات پر استدلال کیا ہے لیکن توبہ سے گناہوں کا معاف ہوجانا بھی مسلم ہے۔ ان دونوں میں تضاد محسوس ہوتا ہے، جسے دور کرنے میں آپ کی مدد کا خواہاں ہوں۔
(۹) غیبت گناہ ہے مگر بعض اوقات کسی انسان کے ایسے اخلاقی معائب بیان کرنے ناگزیر ہوتے ہیں جن سے اس کی سیرت کی تصویر کشی ہو، مثلاً وہ جلد باز ہے۔ غصیلا ہے وغیرہ۔ کیا ضرورۃً بھی ایسا نہیں کیا جاسکتا؟
(۱۰) نزول مسیحؑ، دجال اور یاجوج ماجوج کے متعلق جو تفسیر آپ نے بیان کی ہے اور ان کی باہمی کشمکش کا جو ذکر کیا ہے۔ وہ ایٹمی دور کے نقشہ جنگ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ موجودہ زمانے میں تو تیر تفنگ کے بجائے ایٹم بم سے دنیا چند منٹ میں تباہ ہوسکتی ہے۔
جواب: میری قوت کار چونکہ روز بروز کم ہوتی جارہی ہے اور مصروفیتیں بڑھتی جارہی ہیں، اس لیے مجھے اپنا وقت بڑی کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے زیادہ تفصیلی جواب طلب خطوط کے جواب دینے میں مجھے بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ تاہم آپ کے سوالات کے مختصر جوابات دے رہا ہوں۔
(۱) نفس کا لفظ کبھی تو زندہ اشخاص کے لیے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْت۔ اور کبھی اس سے مراد(Mind) یا ذہن ذی شعور ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا 0 فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا۔ کبھی اس سے مراد روح ہوتی ہے۔ جیسے فرمایا وَاِذَالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (یعنی جب روحیں پھر جسم کے ساتھ ملادی جائیں گی)۔ کبھی اس سے مراد انسان کی پوری ذات ہوتی ہے مع جسم و روح، جیسے فرمایا وَفِٓیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (کیا تم خود اپنی ذات یا اپنے وجود پرغور نہیں کرتے؟) کبھی اس سے مراد انسانی ذہن کے اس حصے سے ہوتی ہے جو خواہشات اور جذبات کا محل ہے، جیسے فرمایا وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ اْلاَنْفُسُ (جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی نفس خواہش کریں گے) اور کبھی اس سے مراد ذہن انسانی کا وہ حصہ ہوتا ہے جو اپنی قوت فیصلہ(Judgement) استعمال کرکے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کس راہ کو اختیار کرنا اور کس طریق کار یا طریق زندگی کو اپنانا ہے۔ یہ نفس اگر برائی کی راہ پر جانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے نفس امارہ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓءِ۔ اگر وہ برائی کے ارتکاب پر کڑھتا اور ملامت کرتا ہے تو اسے نفس لوامہ (یا جدید اصطلاح میں ضمیر) کہا جاتا ہے، جیسے فرمایا وَلَآ اُقْسِمُ بِانَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ۔ اور اگر وہ راہ راست کو پورے شرح صدر کے ساتھ اختیار کرکے اس کی تکلیفوں کو صبر و سکون کے ساتھ گوارا کرتا ہے اور اس کے خلاف چلنے کے فوائد کو ٹھکرا کر پچھتانے کے بجائے خوش رہتا ہے تو اسے نفسِ مُطْمَئِنَّہ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً
جاری ہے
۲۔ قرآن مجید کی آیت وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا … میں نفس سے مراد ذہن ذی شعور ہے جسے سوچنے سمجھنے، رائے قائم کرنے اور انتخاب و فیصلہ کرنے کے لیے ضروری صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں اور علم و فہم اور تعقُّل کے وہ ذرائع بھی بہم پہنچائے گئے ہیں جو ان صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے درکار ہیں۔ تسویہ سے مراد کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک تیار کردینے کے ہیں، جیسے موٹر کو اس طرح تیار کردینا کہ وہ پوری طرح سڑک پر چلنے کے قابل ہوجائے۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک ایسا الہامی (Intuitive Inherent)علم رکھ دیا ہے جس سے وہ برائی اور بھلائی میں تمیز کرتا ہے اور پہنچانتا ہے کہ برائی کی راہ کونسی ہے اور بھلائی کی کونسی۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَذْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا میں نشونما دینے اور دبانے والے سے مراد انسان کی وہ ’’انا‘‘ یا اس کی وہ خودی ہے جو ’’میرا ذہن‘‘، ’’میری عقل‘‘، ’’میرا دل‘‘،’’میری روح‘‘، ’’میری جان‘‘، ’’میری زندگی‘‘ وغیرہ الفاظ بولتی ہے۔ یہی ’’انا‘‘ اس ذہن ذی شعور کی مالک بنائی گئی ہے۔ اس کو یہ ذہن اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ اس کی صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال کرکے اپنی اچھی یا بری شخصیت جیسی بھی چاہے بنائے۔ یہ اگر اس ذہن ذی شعور کو صحیح طور پر ترقی دے اور اس کو ٹھیک طریقے سے استعمال کرے تو فلاح پائے گی، اور اگر وہ نفس امارہ کی غلامی اختیار کرکے ذہن کی ان بہترین صلاحیتوں کو اس فطری راستے پر نہ بڑھنے دے جس پر چلنے کے لیے ہی یہ صلاحیتیں اس میں پیدا کی گئی ہیں اور اس کو زبردستی نفس امارہ کے مطالبات پورے کرنے کے لیے تدبیریں اور چالیں چلنے اور طریقے ایجاد کرنے پر مجبور کرے اور نفس لوامہ کی تنبیہات کو بھی زبرذستی دباتی چلی جائے تو یہ نامراد اور ناکام ہوجائے گی۔
۳۔ دماغ ذہن کا محل اور اس کا وہ مادی آلہ ہے جس کے ذریعہ سے ذہن اپنا کام کرتا ہے۔ اور جسم وہ مشین ہے جو ان احکام کی تعمیل کرتی ہے جو دماغ کے ذریعہ سے ذہن اس کو دیتا ہے۔ اس کو ایک بھدی (Crude)مثال کے ذریعہ سے یوں سمجھے کہ انسان کی ذات گویا مجموعہ ہے ڈرائیور اور موٹر کار کا۔ ڈرائیور ذہن ہے۔ انجن اور اسٹیرنگ ویل میں لگے ہوئے آلات بحیثیت مجموعی دماغ ہے۔ وہ قوت و توانائی جو انجن کے اندر کام کرتی ہے روح ہے اور موٹر کار کی باڈی جسم ہے۔
۴۔ رسول اللہﷺ کے مشاہدے اور صوفیانہ تجربے(Mystic Experience) کا فرق آپ کو ترجمان میں شائع شدہ سورہ نجم کی تفسیر سے اور بھی زیادہ واضح طور پر معلوم ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں غار حرا کے غورو فکر کی نوعیت کے متعلق میں اپنے رسالہ دینیات میں کچھ وضاحت کرچکا ہوں اور آگے تفہیم القرآن میں جب سورہ ضحٰی اور الم نشرح اور سورہ اقراء کی تفسیر آئے گی اس وقت اور زیادہ وضاحت کردوں گا۔ دراصل غار حرا میں حضورﷺ کا وہ غورو فکر اس بات پر تھا کہ جاہلیت کے رسوم و عقائد اور مذہبی اعمال تو آپؐ کو سراسر لغو نظر آتے تھے۔ اہل کتاب (یہودو نصاریٰ) جس مذہب کی نمائندگی کرتے تھے وہ بھی آپؐ کے ذہن کو اپیل نہیں کرتا تھا۔ پھر آپ کی قوم جن شدید اعتقادی اور اخلاقی و معاشرتی خرابیوں میں مبتلا تھی اسے دیکھ دیکھ کر بھی آپؐ سخت پریشان ہوتے تھے اور کوئی راہ آپؐ کو ایسی نہ سوجھی تھی جس سے آپؐ دین کی ایک مکمل قابل اطمینان تعبیر بھی پالیں اور ان خرابیوں کی اصلاح بھی کرسکیں جن میں آپؐ کو اپنا معاشرہ اور گردو پیش کی قوموں کا معاشرہ مبتلا نظر آتا تھا۔ اسی کیفیت کو سورہ الم نشرح میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ (ہم نے تمہارے دل کا وہ بوجھ دور کردیا جو تمہاری کمر توڑے ڈال رہا تھا)۔ اسی کیفیت کو سورہ والضحٰی میں یوں فرمایا گیا کہ وَوَجَدَکَ ضَآ لًّا فَھَدٰی (تمہارے رب نے تم کو واقف راہ پایا اور تمہیں راستہ بتایا)۔ ضال عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جو راستہ نہ جاننے کی وجہ سے حیران کھڑا ہو اور اس پریشانی میں مبتلا ہو کہ کدھر جاؤں۔
۵۔ آپ سے اس سائیکیٹرسٹ نے جو کچھ کہا ہے وہ بیچارہ اپنے فن کے اندر اس مشاہدے اور اس نور علم کی کوئی اور توجیہ نہیں پاسکتا جو نبی کو نصیب ہوتا ہے۔ سائیکلو جی خدا کے بغیر نفس انسانی کے معمے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کنجی کے بغیر قفل کھولنا چاہتا ہے۔ اسے اگر قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق ہوتی تو وہ اپنی سائیکیٹری کے فن میں اس امر کی کوئی توجیہ نہ پاسکتا کہ ایک سائیکوٹک(Psychotic) کا نفسیاتی تجربہ آخر قرآن جیسی کتاب اور محمدﷺکی لیڈر شپ جیسی کمال درجہ جامع،متوازن اور لازوال(Everlasting) قیادت کیسے لاسکتاہے۔ظاہرہے کہ یہ معاملہ سائیکٹیری کے فن کے حدود سے بالاتراور وسیع تر نوعیت کا ہے۔آدمی اگر بے لاگ غیر متعصب اور ضد سے پاک ہو تو وہ اسے سائیکٹری کی گرفت میں لانے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنے فن کی کوتاہی اعتراف کرے گا ۔اس قفل کی کنجی اسے کبھی نہیں مل سکتی جب تک وہ اس بات کو نہ مانے کہ ایک خدا ہے،اور انسان کو اسی زمین میں پیدا کیا ہے، اور اسی نے یہ ذمہ لیا ہے کہ نوع انسانی کی رہنمائی کا انتظام خود انسانوں ہی میں سے بعض افراد کے ذریعہ سے کرے،اور نبی کو وہی اس غرض کے لیے کچھ مشاہدے کراتا ہے اور ایک خاص طریقے سے اس کو علم دیتا ہے۔اس بات کو جانے بغیر نبی کے مشاہدے اور الہام کی یہ احمقانہ تعبیر کہ وہ نعوذ باللہ ایک ذہنی علالت کا نفسیاتی تجربہ تھا، کوئی کر بھی دے تو کیا وہ اپنی سائیکیٹری کے پورے علم سے کسی ایسے نفسیاتی مریض کی کوئی نظیر لا سکتا ہے جس نے فریب نظر و تخیل(Hallucination) کی حالت میں قرآن جیسی ایک کتاب تیار کردی ہو اور پھر اسے لے کر وہ دنیا کی رہنمائی کے لیے اٹھا ہو اور اس نے نہ صرف ایک قوم کی زندگی میں بلکہ نوع انسانی کے ایک بہت بڑے حصے کی زندگی میں ایسام ہمہ گیر انقلاب برپا کردیا ہو۔
۶۔ اسلام نے تاریخِ مذہب کا یہ تصور جو پیش کیا ہے کہ نوع انسانی کا آغاز علم کی روشنی میں ہوا ہے اور نوع انسانی کا ابتدائی دین توحید تھا اور شرک اس کے بعد آیا ہے، اس کی تردید موجودہ علم الآثار (آرکیا لوجی) اور علم الانسان(Anthropology) سے نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ اسلام جس دور کا ذکر کرتا ہے وہ زمانہ قبل از تاریخ ہے اور یہ دونوں علم ابھی تک دور تاریخ ہی میں گھوم رہے ہیں۔ نہ آثار قدیمہ کا علم ابھی انسان کی بالکل ابتدائی حالت تک رسائی پاسکا ہے، اور نہ قبائل قدیمہ(Aboriginal) کے متعلق یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ان قبائل کی زندگی لازماً ابتدائی انسان کی مکمل اور صحیح نمائندہ ہے۔ یہ محض قیاسات ہیں جن کو خواہ مخواہ ’’علم‘‘ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
۷۔ موجودہ سائیکیٹری ہی نہیں بلکہ موجودہ قانونی اور عمرانی فکر سارا رجحان مجرم کی حمایت اور جرائم کے ساتھ رعایت کی طرف جا رہا ہے۔ جن لوگوں کی زندگی مجرمین کے افعال کی شکار ہوتی ہے ان کے ساتھ ہمدردی روز بروز کم ہو رہی ہے اور مجرموں کو سزا دینے پر ان لوگوں کا دل کچھ زیادہ ہی دکھتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وہ اصل محرک ہے جس کی بنا پر یہ فلسفے بھگار رہے ہیں کہ مجرمین دراصل بیمار ہیں، نہ کہ دانستہ ارتکاب جرم کرنے والے سماج دشمن(Anti-social) لوگ۔ سوال یہ ہے کہ اس فلسفے کے تحت کیا آپ کی سائیکیٹری جرائم کو روکنے یا ان کو کم کرنے میں آج تک کا میاب ہوئی ہے؟ بلکہ میں پوچھتا ہوں کہ جرائم کی روز افزوں ترقی کی رفتار کو یہ لوگ کسی حد کے اندر بھی رکھ سکے ہیں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اسلامی فقہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ان فلسفوں سے خواہ مخواہ مرعوب ہو کر اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کرے؟
۸۔ جنوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ان کو خلافت دی گئی ہے۔ البتہ یہ کہا گیا ہے کہ انسان کی طرح جن بھی ایک ذمہ دار مخلوق ہے جس کو کفر و ایمان اور اطاعت و معصیت کی آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح قرآن و حدیث سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جن انسان کے جسم و ذہن پر قبضہ کرسکتا ہے۔ البتہ یہ کہا گیا ہے کہ شیاطین جن انسان کے نفس امارہ سے کسی غیر محسوس طریقہ پر رابطہ قائم کرکے اسے گمراہی کی ترغیب دیتے ہیں۔ نیز قرآن و حدیث میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ابلیس ہر جگہ حاضرو ناظر ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ شیاطین جنِّ میں سے ایک شیطان لگا ہوا ہے جو اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابلیس ہر انسان کے پاس ہر جگہ نہیں جاتا، بلکہ وہ ان شیاطین کا لیڈر ہے۔ شاید وہ بڑے بڑے لیڈروں ہی کے پاس جاتا ہے۔
۹۔ آخرت کے سلسلے میں جو استدلال میں نے کیا ہے،اس میں اور توبہ کے تصور میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے۔ انسان جو جرائم کرتا ہے ان کے اثرات اس کی اپنی ذات پر بھی پڑتے ہیں اور معاشرے میں بھی دور دور تک پھیلتے ہیں، حتیٰ کہ مجرم کے مرنے کے بعد بھی ان کا سلسلہ زمانہ دراز تک چلتا ہے ۔ اگر وہ توبہ نہ کرے اور مرتے دم تک اپنے انہی افعال کو جاری رکھے تو لازماً اسے اللہ کے محاسبے اور سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لیکن اگر وہ توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرنے کی مخلصانہ کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ اسے محاسبے اور سزا سے معاف کردے گا اور جن لوگوں کو اس کے سابق جرائم سے نقصان پہنچا ہے ان کے نقصان کی تلافی کسی اور طریقہ سے فرمادے گا۔ توبہ سے معافی کا دروازہ اگر بند ہو تو جو شخص ایک دفعہ اخلاقی پستی میں گر چکا ہو اس کے لیے تو پھر مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ مایوسی اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہ صرف اس پستی میں مبتلا رکھے گی بلکہ اور زیادہ پستیوں کی طرف گراتی چلی جائے گی۔
۱۰۔غیبت کے متعلق بہت مفصل بحث میری کتاب ’’تفہیمات‘‘ حصہ سوم میں موجود ہے۔ اسے آپ پڑھ لیں گے تو آپ کو اس کی جائز اور ناجائر نوعیتوں کا فرق اچھی طرح معلوم ہوجائے گا۔
۱۱۔ یاجوج و ماجوج، خروج دجال اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق جو سوال آپ نے کیا ہے اس کے متعلق میں کوئی مفصل جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ آئندہ دنیا میں کیا ہونے والا ہے۔مستقبل کے متعلق جتنا کچھ قرآن و حدیث سے میں سمجھ چکا ہوں اسے میں نے تفہیم القرآن اور رسالہ ختم نبوت میں بیان کردیا ہے۔لیکن تفصیلات جاننے کاکوئی ذریعہ میرے پاس نہیں ہے۔ ایٹم کی موجودگی میں بھی قدیم اسلحے کا استعمال غیر ضروری نہیں ہو جاتا اور دست بدست لڑائی کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
(ترجمان القرآن،مارچ۱۹۶۷ء)