پسلی سے حضرت حواؑ کی تخلیق
سوال: تفہیم القرآن جلد۱، سورہ نساء حاشیہ نمبر ۱ کے تحت آپ نے لکھا ہے کہ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے بارے میں عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کے آدمؑ کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا ۔ لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔ اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ حدیث جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے یہ تو بخاری اور مسلم کی ہے۔
ازراہ کرم اس بارے میں تحریر فرمائیں کہ کیا یہ حدیث ناقابل قبول ہے اور اگر نہیں تو اس کا صحیح مفہوم کیا ہے۔
جواب: حضرت حوا کے پسلی سے پیدا کیے جانے کا عقیدہ جن احادیث پر مبنی قرار دیا جاتا ہے ان میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ حضرت حوا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کی گئی تھیں، بلکہ ان میں سے ایک کے الفاظ یہ ہیں کہ عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں (استوصوا بالنساء خیراً فانھن خلقن من ضلعٍ)، عورت کو پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے (المرأۃ کالضلع)، اور تیسری میں یہ فرمایا گیا ہے کہ عورت ذات پسلی سے پیدا ہوئی ہے (المرأۃ خلقت من ضلع) مزید براں ان سب حدیثوں میں اصل موضوع بحث انسانی تخلیق کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ حضورﷺ نے یہ بات اس غرض کے لیے بیان فرمائی ہے کہ عورت کے مزاج میں پسلی کی سی کجی ہے اس کو سیدھا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کی اسی فطری کجی کو ملحوظ رکھ کر ہی اس سے برتاؤ کرنا چاہیے۔ کیا واقعی آپ کا خیال یہ ہے کہ ان احادیث کی رو سے حضرت حوا کا آدم ؑ کی پسلی سے پیدا ہونا ایک اسلامی عقیدہ قرار پاتا ہے؟
(ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۶ء)