مسلم اور مومن کے معنی
سوال: بعض حضرات اسلام اور ایمان کے الفاظ کو اصطلاحی معنوں میں ایک دوسرے کے بالمقابل استعمال کرتے ہیں۔ وہ اسلام سے مراد محض ظاہری اطاعت لیتے ہیں جس کی پشت پر ایمان موجود نہ ہو اور ایمان سے مراد حقیقی اور قلبی ایمان لیتے ہیں۔ ان کا استدلال سورہ حجرات کی اس آیت (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا…) سے ہے، جس میں عرب بدوؤں کو مومن کی بجائے مسلم قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا ہے۔ بعض فرقے اس استدلال کی آڑ میں اپنے آپ کو مومن اور عامۃ المسلمین کو محض مسلم قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ خلفائے راشدین میں سے اصحاب ثلاثہ کو بھی مومن کی بجائے مسلم کہہ کر در پردہ ان کے ایمان پر چوٹ کی جاتی ہے۔ براہ کرم مذکورہ بالا آیت کی صحیح تاویل اور مومن و مسلم کی تشریح بیان فرمائیں۔
جواب: سورہ حجرات کی آیت قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا… کو سورہ توبہ کی آیت ۹۰ تا ۱۰۱ کی روشنی میں پڑھیے تو بات پوری طرح سمجھ میں آجائے گی۔ مدینہ سے باہر اطراف و نواح میں جو بدو رہتے تھے، ان کو اعراب کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ صرف اس وجہ سے مدینے کی اسلامی حکومت کے تابع فرمان ہوگئے تھے کہ ان کے لیے اطاعت کے سوا کوئی چارا نہ رہا تھا۔ مگر نہ وہ جہاد میں جانیں لڑانے اور خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھے اور نہ زکوٰۃ خوشی کے ساتھ دینے کے لیے راضی تھے۔ اس پر ان کا رویہ یہ تھا کہ جب مسلمانوں کے ساتھ فتوحات کے فوائد میں حصہ بٹانے کا معاملہ آتا تھا تو یہ ایک سے ایک بڑھ کر ایمان کا دعویٰ کرتے تھے اور رسول اللہﷺ کے سامنے اپنے دعاوی اس طرح پیش کرتے تھے گویا انہوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر حضورﷺ پر کوئی احسان کیا ہے۔ ان کے اسی رویے کے متعلق سورہ حجرات میں فرمایا گیا کہ یہ لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن دراصل انہوں نے صرف ظاہری اطاعت قبول کی ہے۔ ایمان دل میں ہوتاتو نہ یہ جہاد سے جی چراتے اور نہ اپنے قبول اسلام کا احسان نبیﷺ پر جتاتے۔
اس جگہ بلاشبہ اسلام کا لفظ ایمان کے بغیر صرف مطیع ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قرآن مجید میں اسلام اور ایمان دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے تو اس سے پوچھیے کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ کے کیا معنی ہیں، اور حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کا کیا مطلب ہے کہ:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ البقرہ 128:2
باقی رہا کسی گروہ کا خلفائے ثلاثہ اور تمام صحابہ کرام ؓ کو (باستثنائے چند) مسلم بلا ایمان قرار دینا،تو حقیقت میں یہ ان پر نہیں بلکہ خود نبیﷺ پر چوٹ ہے۔ وہ دراصل یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ معاذ اللہ حضورﷺ ایک انتہائی ناکام نبی تھے، کیوں کہ آپ پر خود آپ کے چند اہل بیت اور تین چار صحابیوں کے سوا کوئی سچے دل سے ایمان نہ لایا، حتیٰ کہ آپؐ کی اکثر بیویاں بھی آپ کے مخلص پیرو نہ تھیں۔ اور اس کے ساتھ وہ حضورﷺ کو نعوذ باللہ سخت بے بصیرت اور سادہ لوح بھی ثابت کرتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول جن لوگوں کو حضورﷺ نے عمر بھر اپنا رفیق بنائے رکھا، وہ دراصل سب کے سب منافق تھے، اور عجیب بات ہے، یہ ظالم اتنا بھی نہیں جانتے کہ ۲۳ سال تک تمام عرب کے مقابلے میں جدوجہد کرکے جو عظیم الشان کامیابی حضورﷺ کو حاصل ہوئی، وہ آخر کیسے حاصل ہوسکتی تھی، اگر آپ کے یہ تمام ساتھی مخلص و وفادار اور جاں نثار فدائی نہ ہوتے۔ سالہا سال تک عرب کی پوری قوم حضورﷺ سے برسرپیکار تھی اور یہی صحابہ آپ کے دست و بازو بنے ہوئے تھے۔ معاذ اللہ اگر یہ منافق ہوتے تو عرب کیسے مسخر ہوجاتا؟ واقعہ یہ ہے کہ بغض اور تعصب میں جب آدمی اندھا ہوجاتا ہے تو سورج کی طرح روشن حقائق بھی اس کو نظر نہیں آتے۔
(ترجمان القرآن۔ نومبر ۱۹۶۳ء)