اہل سنت اور اہل تشیع کے بعد اختلافی مسائل
سوال: مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دے کر مشکور فرمادیں۔ یہ دراصل میرے ایک شیعہ دوست کے اعتراضات ہیں:
(۱) آیت وضو (پارہ ۶۔ رکوع ۲) میں فَاغْسِلُوْا اور وَامْسَحُوْا دو فعل استعمال ہوئے ہیں۔ پہلے سے چہرے اور کہنیوں تک دھونے کا حکم ہے اور دوسرے سے پیروں اور سروں کے مسح کرنے کا حکم ہے۔ سمجھنا یہ مقصود ہے کہ اہل سنت پیر دھوتے ہیں۔ پیروں کا مسح کیوں نہیں کرتے؟ یہ بات کہاں سے ظاہر ہوتی ہے کہ پیر وضو کے آخر میں دھوئے جائیں۔ جواب مفصل اور واضح ہونا چاہیے۔
(۲) آیۂ تطہیر میں حضرت علیؓ شامل ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو فدک کی جائداد مانگتے وقت وہ حق پر تھے یا نہیں؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آیۂ تطہیر میں شامل ہونے کی وجہ سے حضرت علیؓ کی طرف سے کسی وقت بھی ایسی بات یعنی مطالبہ فدک کا گمان نہیں ہوسکتا۔ وضاحتاً دو صورتیں پیدا ہیں۔ ایک فدک کا مانگنا دوسرے فدک کا نہ دیا جانا … ایسی صورت میں صرف ایک ہی چیز درست ہوسکتی ہے۔ یا مانگنا، یا نہ دیا جانا۔ اس میں کون سی چیز صحیح ہے۔ ترجمان القرآن بابت ماہ نومبر ۵۸ء میں حضرت علیؓ کی طرف آپ نے یہ کئی جگہ اشارہ کیا ہے کہ حضرت علیؓ کو علم تھا کہ رسول اللہﷺ کی میراث نہیں ہوتی، پھر بھی انہوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس کا مطالبہ کیا یہ کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟
(۳) جب معاملہ خلافت پہلی مرتبہ حضرت ابوبکرؓ کے حق میں مسجد نبوی میں طے ہوا تو کیا اس وقت حضرت علیؓ موجود تھے؟ اگر نہیں تو ان کو بلایا گیا یا نہیں؟ کیا کبھی حضرت علیؓ نے حضرت ابو بکرؓ کی بیعت کی؟ اور کس وقت؟ یہ بھی لکھئے کہ حضرت علیؓ کو کیوں نہ بلایا گیا؟
جواب: آیت وضو (سورہ مائدہ، رکوع دوم) کے متعلق شیعوں اور سنیوں کے درمیان یہ اختلاف بہت پرانا ہے کہ آیا اس میں پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا ہے یا ان پر صرف مسح کرنے کا۔ آپ کے دوست کو یہ غلط فہمی ہے کہ قرآن مجید میں صاف پیروں کے مسح کرنے کا حکم ہے اور اہل سنت نے محض حدیث کی بنیاد پر دھونے کا مسلک اختیار کرلیا ہے۔ اگر صاف حکم یہی موجود ہوتا تو پھر کسی کی مجال تھی کہ اس کے خلاف عمل کرتا۔ اصل مختلف فیہ سوال تو یہی ہے کہ قرآن مجید فی الواقع دونوں فعلوں میں سے کس کا حکم دیتا ہے اور اس کا حقیقی منشا کیا ہے۔
آیت کے الفاظ یہ ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم اٹھو نماز کے لیے تو دھوؤ اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک اور مسح کرو اور اپنے سروں پر اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک‘‘۔
اس میں لفظ وَاَرْجُلکُمْ کی دو قرائتیں متواتر ہیں۔ نافع، ابن عامر، حفص، کسائی اور یعقوب کی قرأت وَاَرْجُلَکُمْ (بفتح لام) ہے اور ابن کثیر، حمزہ، ابو عمرو اور عاصم کی قرأت وَاَرْجُلِکُمْ (بکسر لام)۔ ان میں سے کسی قرأت کی حیثیت بھی یہ نہیں ہے کہ بعد میں کسی وقت بیٹھ کر نخویوں نے اپنے اپنے فہم اور منشا کے مطابق قرآنی الفاظ پر خود اعراب لگادیے ہوں، بلکہ یہ دونوں قرأئتیں متواتر طریقے سے منقول ہوئی ہیں۔ اب اگر پہلی قرأت اختیار کی جائے تو وَاَرْجُلَکُمْ کا تعلق فَاغْسِلُوْا کے حکم سے جڑتا ہے اور معنی یہ ہوجاتے ہیں: ’’اور دھوؤ اپنے پاؤں ٹخنوں تک‘‘۔ اور اگر دوسری قرأت قبول کی جائے تو اس کا تعلق وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُمْ سے قائم ہوتا ہے اور معنی یہ نکلتے ہیں:’’ اور مسح کرو اپنے پاؤں پر ٹخنوں تک‘‘۔
یہ صریح اختلاف ہے جو ان دو مشہور و معروف اور متواتر قرأتوں کی وجہ سے آیت کے معنی میں واقع ہوجاتا ہے۔ اس تعارض کو رفع کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ دونوں قرأتوں کو ایک ہی مفہوم (غسل یا مسح) پر محمول کیا جائے۔ لیکن اس کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں، وہ ہمیں کسی قطعی نتیجے پر نہیں پہنچاتیں۔ کیونکہ جتنے وزنی دلائل کے ساتھ ان کو غسل پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ قریب قریب اتنے ہی وزنی دلائل مسح پر محمول کرنے کے حق میں بھی ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ محض قواعد زبان کی بنا پر ان میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دی جائے لیکن یہ صورت بھی مفید طلب نہیں۔ کیونکہ دلائل ترجیح دونوں پہلوؤں میں قریب قریب برابر ہیں۔ اب آخر اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عمل کو دیکھا جائے۔
ظاہر ہے کہ وضو کا حکم کہیں خلا میں تو نہیں دیا گیا تھا اور نہ محض قرآن مجید کے مصحف پر لکھا ہوا ہمیں مل گیا ہے۔ یہ تو ایک ایسے فعل کا حکم ہے جو پنج وقتہ نمازوں کے موقع پر عمل کرنے کے لیے دیا گیا تھا، حضور اکرمﷺ خود اس پر ہر روز کئی کئی مرتبہ عمل فرماتے تھے اور آپؐ کے متبعین، مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب روزانہ اس حکم کی تعمیل اس طریقے پر کرتے تھے جو انہوں نے آنحضورﷺ کے قول اور عمل سے سیکھا تھا۔ آخر ہم کیوں نہ یہ دیکھیں کہ قرآن کے اس حکم پر ہزارہا صحابہؓ نے حضور اکرمﷺ کو، اور بعد کے بے شمار مسلمانوں نے صحابہ کرامؓ اجمعین کو کس طرح عمل کرتے دیکھا؟ قرآن مجید کے الفاظ سے جو بات واضح نہ ہوتی ہو، اسے سمجھنے کے لیے اس ذریعے سے زیادہ معتبر ذریعہ اور کون سا ہوسکتا ہے۔
اس ذریعہ علم کی طرف جب ہم رجوع کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ صحابہؓ کی اتنی کثیر تعداد رسول اللہﷺ سے پاؤں دھونے کے قول اور عمل کو نقل کرتی ہے اور تابعین کی اس سے بھی زیادہ تعداد صحابہؓ سے اس کو روایت کرتی ہے کہ اس خبر کی صحت میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ درست ہے کہ کچھ تھوڑی بہت سی روایات مسح کے حق میں بھی ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ کا عمل مسح کا تھا، بلکہ دو تین صحابیوں کی اپنی رائے یہ تھی کہ قرآن صرف مسح کا حکم دیتا ہے۔ نیز ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ اگر وضو سے ہوتے اور پھر نماز کے وقت تجدید وضو کرنا چاہتے تو صرف مسح کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔ دوسری طرف متعدد مستند روایات خود اہل تشیع کے ہاں ایسی ملتی ہیں جن سے پاؤں دھونے کا حکم اور عمل ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً محمدبن نعمان کی روایت ابوعبداللہؓ سے جس کو کلبی اور ابوجعفر طوسی نے بھی صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم سر کا مسح بھول جاؤ اور پاؤں دھوبیٹھو تو پھر سر کا مسح کرو اور دوبارہ پاؤ دھولو۔‘‘ اس طرح محمد بن حسن الصفار، حضرت زید بن علی سے وہ اپنے والد امام زین العابدین، وہ اپنے والد امام حسینؓ سے اور وہ اپنے والد سیدنا علیؓ سے، ان کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’میں وضو کرنے بیٹھا تو سامنے سے رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ میں جب پاؤں دھونے لگا تو آپؐ نے فرمایا کہ اے علی! انگلیوں کے درمیان خلال کرلو۔‘‘ الشرف الرضی نے ’’نہج البلاغہ‘‘ میں حضرت علیؓ سے رسول اللہﷺ کے وضو کی جو کیفیت نقل کی اس میں بھی وہ پاؤں دھونے ہی کا ذکر فرماتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ روایات کا وزن تمام تر غسل قدمین کے حق میں ہے اور محض مسح کی تائید بہت ہی کم اور سنداً و معناً کمزور روایتیں کرتی ہیں۔
اب عقل کے لحاظ سے دیکھیے تو پاؤں دھونے ہی کا عمل زیادہ معقول اور قرآن مجید کے منشاء کے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔ وضو میں جتنے اعضاء کی صفائی کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سب سے زیادہ گندگی اور میل کچیل لگنے کا امکان اگر کسی عضو کو ہے تو وہ پاؤں ہی ہیں اور سب سے کم جس حصہ جسم کے آلودہ ہونے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، وہ سر ہے۔ یہ عجیب بات ہوگی کہ دوسرے سب اعضاء کو تو دھونے کا حکم ہو اور پاؤں مسح کے حکم میں سر کے ساتھ شامل کیے جائیں۔ پھر پاؤں پر مسح اگر وضو کے آخر میں کیا جائے تو لامحالہ گیلے ہاتھ ہی پھیرنا ہوں گے۔ اس صورت میں پاؤں پر جو گردوغبار یا میل کچیل موجود ہوگا، وہ گیلے ہاتھ پھیرنے سے اور بھی زیادہ گندا ہوجائے گا۔ علاوہ بریں اگر آدمی پاؤں پر صرف مسح کرے تو آیت کے دو متحمل معنوں میں سے ایک (یعنی غسل قدمین) لازماً چھوٹ جاتا ہے اور صرف ایک ہی مفہوم کی تعمیل ہوتی ہے لیکن اگر آدمی پاؤں دھوئے بھی اور اچھی طرح ہاتھوں سے مل کر ان کو صاف بھی کردے تو آیت کے دونوں مفہوموں پر بدرجۂ اتم عمل ہوجاتا ہے، کیونکہ اس صورت میں غسل اور مسح دونوں جمع ہوجاتے ہیں۔
البتہ مسح کے حکم پر عمل رسول اللہﷺ نے اس حالت میں کیا ہے جبکہ آپؐ موزے پہنے ہوئے تھے۔ یہ آیت کے دوسرے مفہوم سے بھی مطابقت رکھتا ہے، بکثرت روایات صحیحہ سے بھی ثابت ہے اور سراسر معقول بھی۔ مگر تعجب ہے کہ شیعہ حضرات اسے نہیں مانتے، حالانکہ یہ ان کے اپنے مسلک سے بھی قریب تر ہے۔
(۲) آیۂ تطہیر میں بلاشبہ حضرت علیؓ شامل ہیں، اور خدانخواستہ کوئی مومن بھی ان کے رجس (اخلاقی و اعتقادی گندگی) میں مبتلا ہونے کا قائل نہیں، بلکہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن حضور اکرمﷺ کی میراث کے اس مقدمے میں آخر رجس اور طہارت کی بحث پیدا ہونے کا کیا محل ہے۔ نیک نیتی کے ساتھ بھی تو ایک حکم کا منشاء سمجھنے اور ایک معاملہ خاص پر اس کو منطبق کرنے میں ان کے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان اختلاف ہوسکتا تھا۔ اس سے لازماً یہی معنی کیوں نکالے جائیں کہ انہوں نے دانستہ رسول اللہﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میراث رسولؐ کا مطالبہ کیا۔
بہرحال اس معاملے میں دو واقعے ناقابل انکار ہیں۔ ایک یہ کہ اہل بیعت کی طرف سے میراث کا مطالبہ ہوا اور اس مطالبے میں سیدنا فاطمہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ تینوں شامل ہیں۔ دوسرے یہ جب پانچ سال تک حضرت علیؓ خود خلیفہ تھے اور حجاز (جہاں حضور اکرمﷺ کی تمام متروکہ جائیداد واقع تھی) پوری طرح ان کے تحت اختیار تھا، اس وقت انہوں نے بھی حضور اکرمﷺ کی میراث تقسیم نہیں کی۔ اب ان دونوں واقعات کی جو توجیح آپ کے دوست کرنا چاہیں کرلیں۔ ہم اس کی جو توجیح کرتے ہیں، اس میں رجس کے کسی شائبہ کی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ ہمارے نزدیک ابتداءً یہ مطالبہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے اٹھا تھا (اور غلط فہمی قطعاً کوئی اخلاقی یا اعتقادی گندگی نہیں ہے) بعد میں جب حضر ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ نے پوری طرح اس معاملے کی حقیقت واضح کردی، تو حضرات اہل بیعت بھی مطمئن ہوگئے، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ حضرت علیؓ اپنے زمانۂ خلافت میں شیخین کے فیصلے کو ناجائز سمجھتے اور پھر بھی اس کو بدل کر حق داروں تک ان کا حق پہنچانے سے احتراز کرتے۔ ہم حضرت علیؓ کو اس سے بالاتر مانتے ہیں کہ وہ ایک چیز کو باطل سمجھتے ہوں اور پھر قصداً اس پر قائم رہیں اور ایک چیز کو نہ صرف اپنا بلکہ دوسر ے حق داروں کا بھی حق جانتے ہوں اور پھر بھی اسے ادا نہ کریں۔ یہ بلاشبہ رجس ہے جس کے ادنیٰ غبار سے بھی ہم اہل بیعت اطہار کے دامن کو آلودہ نہیں مان سکتے۔
(۳) آپ کے دوست کا تیسرا سوال واقعات سے بے خبری پر مبنی ہے۔ معاملہ خلافت مسجد نبوی میں نہیں سقیفہ بنی ساعدہ میں اس رات طے ہوا تھا جس کی شام حضور اکرمﷺ کا انتقال ہوا۔ اس وقت مہاجرین و انصار میں سے کوئی بھی وہاں بلایا ہوا نہیں گیا تھا۔ دراصل انصار کا ایک بڑا گروہ اس جگہ جمع ہوگیا تھا اور خلافت کے مسئلے کو طے کرنا چاہتا تھا۔ جونہی ان کے اس اجتماع اور ارادے کی اطلاع حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کو ہوئی وہ فوراً وہاں پہنچ گئے اور ایک فتنہ عظیم کا دروازہ بند کرنے کے لیے انہوں نے اسی وقت انصار کی اس جماعت کو سمجھا بجھا کر اس مسئلے کا ایک ایسا فیصلہ تسلیم کرالیا جس میں امت کی خیر تھی۔ وہ وقت آدمی بھیج بھیج کر لوگوں کو گھروں سے بلانے کا نہ تھا۔ اگر یہ تینوں حضرات ذرا سی تاخیر بھی کرگئے ہوتے تو وہاں مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خانہ جنگی کی بنا پڑگئی ہوتی، جو بعد کے فتنۂ ارتداد میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے مہلک ثابت ہوتی۔ اس حالت میں کوئی صاحب عقل آدمی یہ تجویز لے کر نہیں اٹھ سکتا تھا کہ صاحبو، دو چار روز اس معاملے کو ملتوی رکھو، کل رسول اللہﷺ کی تجہیزوتکفین سے فارغ ہو کر ایک کانفرنس کا اعلان کریں گے اور پھر اس میں یہ مسئلہ طے کرلیا جائے گا کہ حضور اکرمﷺ کا جانشین کون ہو۔ اس طرح کی تجویز پیش کرنے کے معنی یہ ہوتے کہ ایک طرف تو سرکار رسالت مآبﷺ کے وفات پاجانے کی خبر عرب کے مختلف حصوں میں اس تصریح کے ساتھ پھیلتی کہ کوئی شخص آپؐ کی جگہ امت کا کام سنبھالنے کے لیے مقرر نہیں ہوا ہے اور یہ چیز ان عناصر کی ہمتیں کئی گنا زیادہ بڑھادیتیں جو اسلام کے خلاف بغاوت برپا کردینے کے لیے موقع کے منتظر بیٹھے تھے۔ اور دوسری طرف مجوزہ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے انصار کے درمیان یہ رائے پختہ ہوچکی ہوتی کہ خلیفہ یا تو کوئی انصاری ہونا چاہیے، یا پھر ایک امیر انصار میں سے ، ایک مہاجرین میں سے ہونا چاہیے۔ حضرت عمرؓ کی بصیرت اس غلطی کے نتائج اچھی طرح سمجھ رہی تھی اس لیے انہوں نے وہیں اسی وقت مسئلے کا تصفیہ کرالینا ضروری سمجھا تاکہ کسی فتنے کو پرورش پانے کا موقع نہ ملے اور بلاتاخیر اس شخص کی خلافت پر بیعت کرالی جسے تمام عرب رسول اللہﷺ کے دست راست کی حیثیت سے جانتا تھا، جس کے متعلق دوست اور دشمن، سب ہی یہ رائے رکھتے تھے کہ مسلمانوں میں حضور اکرمﷺ کے بعد اگر دوسرے درجے کی کوئی شخصیت ہے تو ان ہی کی ہے۔
دوسرے روز صبح کو مسجد نبوی میں جو اجتماع ہوا وہ بیعتِ عام کے لیے تھا، نہ کہ مسئلہ خلافت کا تصفیہ کرنے کے لیے جیسا کہ آپ کے دوست سمجھ رہے ہیں۔ اس وقت خلافت کے اس مسئلہ کو جو رات بڑی مشکل سے طے ہوا تھا ازسرنو بحث کے لیے کھولنے کے کوئی معنی ہی نہ تھے۔ یہ اگر بحث کے لیے کھل سکتا تھا تو اسی طرح کے عام مسلمان رات کی قرارداد کو قبول کرنے سے انکار کردیتے لیکن جب انہیں اس فیصلے سے مطلع کیا گیا تو سب نے اسے بخوشی قبول کرلیا اور بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔ سوال یہ ہے کہ اس قبول عام کی صورت میں آخر کیوں اسے نئے سرے سے ایک تصفیہ طلب مسئلہ بنا کر بحث کے لیے سامنے رکھا جاتا؟
اس اجتماع میں کوئی بھی گھر سے نہیں بلایا گیا تھا سارے لوگ دور دور سے آکر اس لیے اکٹھے ہوئے تھے کہ حضور اکرمﷺ کے انتقال کی خبر سن کر لامحالہ انہیں اسی وقت مسجد نبوی کا رخ کرنا تھا جس سے متصل حجرہ عائشہؓ میں حضور اکرمﷺ کا جسد اطہر آرام فرما تھا۔ آپ کے دوست کے دل میں آخر حضرت علیؓ ہی کے متعلق یہ سوال کیسے پیدا ہوا کہ انہیں وہاں بلایا گیا تھا یا نہیں؟ کیا وہاں اور سب لوگ گھروں سے آدمی بھیج بھیج کر منگوائے گئے تھے اور کیا آپ کے دوست کا سوال یہ ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے دوسرے ہی روز حضرت علیؓ صبح کی نماز میں بھی شریک نہ ہوئے اور دن بھر اس مقام سے بھی غائب رہے جہاں سرکارﷺ کی تجہیز و تکفین اور قبرمبارک کی تیاری کا کام ہورہا تھا؟
آپ کے دوست کا آخری سوال کہ حضرت علیؓ نے کبھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی؟ تو اس کا جواب ہے کہ ممدوح نے اسی روز سب مسلمانوں کے ساتھ بیعت کی تھی۔ طبری نے سعیدبن زیدؓ کے حوالے سے بیہقی نے ابوسعید خدریؓ کے حوالے سے اور موسیٰ بن عقبہؓ صاحب المغازی نے عبدالرحمن بن عوفؓ کے حوالے سے عمدہ سند کے ساتھ یہ روایات نقل کی ہیں۔ اس کے بعد آنجناب سیدنا فاطمہؓ کے پاس خاطر سے چھ مہینے خانہ نشین رہے اور پھر ان کی وفات کے بعد دوبارہ تجدید بیعت کرکے کاروبار خلافت میں ویسی ہی دلچسپی لینی شروع کی جیسی ان کے شایان شان تھی۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اور علامہ ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں یہ واقعہ نقل بھی کیا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہوچکی تو ابوسفیان نے آکر ان سے کہا کہ ’’یہ کیا غضب ہوگیا؟ قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی کیسے خلیفہ بنا دیا گیا؟ اے علیؓ! اگر تم چاہو تم خدا کی قسم! میں اس وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھردوں۔‘‘ اس پر انہوں نے جو جواب دیا، وہ سننے کے قابل ہے، فرمایا ’’اے ابوسفیان! تم ساری عمر اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی کرتے رہے مگر تمہاری دشمنی سے نہ اسلام کا کچھ بگڑ سکا اور نہ اہل اسلام کا۔ ہم ابوبکرؓ کو اس منصب کا اہل سمجھتے ہیں۔‘‘
(ترجمان القرآن۔ فروری ۱۹۵۹ء)